چوتھا کہاں گیا؟ (ملایا کی لوک کہانی)
چار دیہاتی ایک قریبی دریا پر مچھلیاں شکار کرنے گئے۔ وہ صبح سے سہ پہر تک مچھلیاں پکڑتے رہے۔ جب بہت ساری مچھلیاں پکڑ لیں تو ان کو بانس میں پرو کر اپنے اپنے کندھے سے لٹکا لیا اور گھر کی طرف چل دیے۔ چاروں بہت خوش تھے۔ ایک نے کہا، "آج کا دن تو […]
چار دیہاتی ایک قریبی دریا پر مچھلیاں شکار کرنے گئے۔ وہ صبح سے سہ پہر تک مچھلیاں پکڑتے رہے۔ جب بہت ساری مچھلیاں پکڑ لیں تو ان کو بانس میں پرو کر اپنے اپنے کندھے سے لٹکا لیا اور گھر کی طرف چل دیے۔ چاروں بہت خوش تھے۔
ایک نے کہا، "آج کا دن تو بہت اچھا رہا۔ ہماری بیویاں اتنی ساری مچھلیاں دیکھ کر بہت خوش ہوں گی۔”
دوسرے نے کہا، ” ہاں، اور ہم سب کے گھر والے خوب مزے لے کر مچھلیاں کھائیں گے۔” باقی دو دیہاتی کچھ نہیں بولے اور ان کی باتوں پر صرف سَر ہلا دیا۔ ابھی وہ تھوڑی دور گئے تھے کہ ان میں سے ایک اچانک رک گیا۔ وہ کچھ دیر سر جھکائے سوچتا رہا اور پھر عجیب عجیب سی نظروں سے دوسروں کو دیکھنے لگا۔
اس کے ساتھیوں میں سے ایک نے پوچھا، "کیا ہوا؟”
اس کے منہ سے نکلا، "چوتھا کہاں گیا؟”
باقی سب نے ایک آواز ہو کر پوچھا، "کیا مطلب؟”
وہ بولا "بھئی دیکھو! صبح جب ہم گھر سے آئے تھے تو چار تھے۔ اب ہم صرف تین ہیں۔ چوتھا کہاں گیا؟”
اس بات پر سب حیران ہو گئے۔ اب دوسرے نے گننا شروع کیا، "ایک، دو، تین۔” اس نے خود کو چھوڑ کر باقی کو گنا اور بول اٹھا، "ارے واقعی چوتھا کہاں گیا؟” ان دونوں کو پریشان دیکھ کر باقی دو دیہاتیوں نے بھی باری باری سب کو گنا اور چونکہ ہر دیہاتی خود کو نہیں گنتا تھا، اس لیے ان چاروں کو یقین ہوگیا کہ وہ واقعی تین رہ گئے ہیں اور ان میں سے ایک غائب ہے۔ اب تو ان کی پریشانی بڑھ گئی۔ وہ سوچنے لگے چوتھا اگر غائب ہوا تو کیسے، وہ سب تو ساتھ ہی تھے۔
آخر ان میں سے ایک چیخا، "ہو نہ ہو، وہ بے وقوف ابھی تک مچھلیاں پکڑ رہا ہو گا۔”
اس کی یہ بات سب کے دل کو لگی۔ وہ دریا کی طرف بھاگے، مگر دریا کے کنارے پر تو کوئی بھی نہ تھا۔ انہیں بڑی مایوسی ہوئی۔ ایک روہانسا ہو کر بولا، "آخر اسے ہوا کیا؟ زمین کھا گئی یا آسمان نگل گیا؟”
ایک دور کی کوڑی لایا، "ہو سکتا ہے وہ دریا میں گر گیا ہو۔ آؤ دیکھیں ورنہ اس کی بیوی ہمارا نجانے کیا حشر کرے۔”
وہ ادھر ادھر ڈھونڈتے رہے مگر وہ نہ ملنا تھا نہ ملا، البتہ ایک مکّار اور کام چور آدمی ان کو مل گیا۔ وہ کافی دیر سے چھپ کر ان کی حرکتیں دیکھ رہا تھا اور سمجھ گیا تھا کہ یہ سب بیوقوف اور گاؤدی ہیں۔ اس نے ان سے مچھلیاں ٹھگنے کی ٹھانی۔
وہ اچانک ان کے سامنے آ کر بولا، "شام بخیر دوستو! کیسے ہو؟”
ان میں سے ایک بولا، "ہم بڑی مصیبت میں ہیں۔”
وہ بناوٹ سے بولا، "ارے! کیا ہو گیا؟”
ان میں سے ایک دہیاتی نے سارا ماجرا اس کے سامنے رکھا کہ ہم چاروں دوست گھر سے شکار کو آئے تھے، مگر ہمارا چوتھا ساتھی غائب ہوگیا ہے۔ وہ چالاک شخص دل ہی دل میں ان پر ہنس رہا تھا مگر بناوٹی لہجے میں فکر مندی ظاہر کرتے ہوئے بولا، "ادھر ادھر دیکھا بھی ہے؟”
چاروں افسردہ ہو کر بولے، "ہاں بڑا تلاش کیا، مگر وہ مل ہی نہیں رہا۔” "اب ہم اس کی بیوی سے کیا کہیں گے۔ وہ تو ہماری جان کو آ جائے گی۔ ہے بھی بڑی لڑاکا۔”
مکّار اور کام چور آدمی نے مصنوعی حیرت سے یہ سب باتیں سنیں۔ کچھ دیر یونہی سامنے گھورتا رہا، پھر اچانک لرزنے لگا اور گھٹنوں کے بل گر پڑا۔ اس کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔ وہ چاروں اس کی حالت دیکھ کر اور بھی ڈر گئے۔ وہ لرزتی ہوئی آواز میں بولا، تم کہہ رہے تھے کہ تم چار تھے۔”
"ہاں ہم چار تھے۔”
"دریا پر تم چاروں نے مچھلیاں پکڑیں؟”
"ہاں ہم چاروں نے مچھلیاں پکڑیں۔”
"لیکن اب صرف تین رہ گئے ہو۔” وہ بظاہر لرزتا ہوا مگر اندر سے اپنی ہنسی ضبط کرتا ہوا بولا۔
چاروں نے ایک آواز ہو کر کہا، "ہاں ہم صرف تین رہ گئے ہیں۔”
وہ آدمی بولا، "اوہ میرے الله!”
وہ چاروں لرز گئے، "کیا ہوا؟”
وہ بری طرح کانپنے لگا اور بولا، "مجھے ڈر لگ رہا ہے۔”
وہ بے وقوفوں کی طرح بولے، "ڈر تو ہمیں بھی لگ رہا ہے، مگر کس بات سے یہ معلوم نہیں۔”
مکّار شخص کانپتے ہوئے بولا، "میں بتاتا ہوں کہ مجھے ڈر کیوں لگ رہا ہے۔ وہ چوتھا اسی لیے غائب ہے کہ وہ تمہارا دوست تھا ہی نہیں۔”
چاروں کی آنکھیں حیرت اور خوف سے پھیل گئیں۔ وہ بولے، "پھر کون تھا وہ؟”
مکّار آدمی بولا، "وہ؟ وہ تو جنّ تھا۔ وہ جن تھا جنّ۔۔۔۔”
یہ کہہ کر وہ گاؤں کی طرف بھاگ نکلا۔ ان چاروں احمقوں نے ایک دوسرے کو دیکھا پھر انہوں نے اپنا اپنی مچھلیاں وہیں پھینک دیں اور خود بھی یہی چیختے ہوئے بھاگ نکلے، "وہ جنّ تھا جنّ۔”
وہ ایسے بھاگے کہ مڑ کر یہ بھی نہ دیکھا کہ وہ کام چور آدمی جو ان سے پہلے بھاگ نکلا تھا، کدھر ہے۔ وہ تو ایک پیر کے پیچھے چھپ گیا تھا اور ان بے وقوفوں کے بھاگتے ہی پیڑ کی اوٹ سے نکل کر ان کی مچھلیاں جمع کرنے لگا۔ وہ ان بے وقوفوں کی شکار کی ہوئی مچھلیاں اپنے گھر لے گیا۔
اس مکّار اور کام چور شخص کی بیوی اس سے بڑی تنگ تھی۔ وہ کوئی کام دھندا نہیں کرتا تھا اور دن بھر گھر سے باہر گھومتا پھرتا رہتا تھا۔ اس کی بیوی محنت مزدوری کرکے کسی طرح کنبے کا پیٹ بھرنے پر مجبور تھی۔ آج اس عورت نے سوچ رکھا تھا کہ آتے ہی اس کام چور کی خبر لوں گی، لیکن کام چور کی قسمت اچھی تھی۔
اپنے شوہر کو دیکھ کر اس کی باچھیں کھل گئیں، کیوں کہ وہ ڈھیر ساری مچھلی لے کر آیا تھا۔ وہ اپنی بیوی سے بولا، "صبح سے اب تک دریا پر مچھلیاں پکڑتا رہا، بہت تھک گیا ہوں۔ اب تم جلدی سے ایک بڑی مچھلی پکا کر مجھے کھلا دو، بہت بھوک لگ رہی ہے۔ باقی کو اس طرح رکھ دو کہ وہ خراب نہ ہوں۔”
"ہاں، ہاں، کیوں نہیں، اتنی محنت تم نے کی ہے، میرا فرض بنتا ہے کہ تم کو مزیدار سالن بنا کر دوں، آج تو کمال ہی ہوگیا۔” بیوی نے کہا اور چولھے کی طرف بڑھ گئی۔ کام چور چارپائی پر لیٹ گیا اور آنکھیں موند لیں۔ وہ دل ہی دل میں ان بے وقوفوں پر ہنس رہا تھا اور اپنی بیوی کو دھوکا دینے پر خوش بھی تھا۔
سچ ہے کاہل اور کام چور آدمی سے غیر ہی نہیں اپنے بھی نہیں بچ پاتے اور وہ سب کو یکساں طور پر دھوکا دیتا ہے۔
(ملایا کی یہ لوک کہانی بچّوں کے ماہ نامہ ‘نونہال’ میں 1988ء میں شایع ہوئی تھی جس کے مترجم اشرف نوشاہی ہیں)
آپ کا ردعمل کیا ہے؟