پاکستان کی وحدت کا قائل وہ ‘بنگالی’ جسے دو سال تک جیل میں رہنا پڑا
یہ سقوطِ ڈھاکہ پر ایک مشہور تصنیف کے مصنف کی باتیں ہیں جس پر آج بھی دل خون کے آنسو روتا ہے۔ مصنّف ان لوگوں میں سے تھے جنھوں نے مشرقی پاکستان کو بنگلہ دیش بنتے اپنی آنکھوں سے دیکھا۔ یہ شخصیت پروفیسر ڈاکٹر سید سجاد حسین ہیں جو سقوط مشرقی پاکستان سے پہلے صوبے […]
یہ سقوطِ ڈھاکہ پر ایک مشہور تصنیف کے مصنف کی باتیں ہیں جس پر آج بھی دل خون کے آنسو روتا ہے۔ مصنّف ان لوگوں میں سے تھے جنھوں نے مشرقی پاکستان کو بنگلہ دیش بنتے اپنی آنکھوں سے دیکھا۔
یہ شخصیت پروفیسر ڈاکٹر سید سجاد حسین ہیں جو سقوط مشرقی پاکستان سے پہلے صوبے کی معروف ترین ڈھاکہ یونیورسٹی کے آخری وائس چانسلر تھے۔ انگریزی ادب کے ممتاز استاد اور فلسفہ تاریخ کے ماہر پروفیسر ڈاکٹر سید سجاد حسین ضلع ماگورہ (موجودہ بنگلہ دیش) میں پیدا ہوئے۔ ڈھاکہ یونیورسٹی سے انگریزی میں ماسٹرز کیا اور ناٹنگھم یونیورسٹی (برطانیہ) سے انگریزی ادب میں پی ایچ ڈی کی۔
وہ قائد اعظم کی ولولہ انگیز قیادت سے متاثر ہو کر تحریک آزادی کے قافلے کا حصہ بنے اور قیام پاکستان کی حمایت کرنے والے اوّلین بنگالی نوجوانوں میں سے ایک تھے۔ بنگلہ زبان میں انھوں نے "پاکستان” کے نام سے پندرہ روزہ جریدہ بھی جاری کیا۔ مختلف اخبارات میں نظریۂ پاکستان کے حق میں مضامین تحریر کیے۔ 1944ء میں اسلامیہ کالج، کلکتہ میں انگلش کے لیکچرر مقرر ہوئے۔ ساری زندگی درس و تدریس میں صرف کر دی۔ راج شاہی یونیورسٹی کے وائس چانسلر رہے اور سقوط مشرقی پاکستان سے چند ماہ قبل ڈھاکہ یونیورسٹی کے وائس چانسلر مقرر ہوئے تھے۔ انھوں نے بنگلہ دیش میں جو سزائیں بھگتیں اور دو سال جیل بھی کاٹی۔ اس کا تذکرہ انھوں نے اپنی یادداشتوں پر مبنی کتاب میں کیا ہے جس سے یہ پارے لیے گئے ہیں۔ پانچ کتابوں کے مصنّف کی اس کتاب کا اردو ترجمہ "شکستِ آرزو” کے نام سے ہوا تھا۔ اسے ہم ایک عاشقِ زار کے طرز فکر، جذبات اور مشاہدات کا دل گداز مرقع کہہ سکتے ہیں۔ وہ لکھتے ہیں:
میں نے یہ یادداشتیں ۱۹۷۳ء میں ڈھاکا جیل میں قلم بند کی تھیں، جہاں مجھے پاکستان کے خلاف چلائی جانے والی تحریک میں شیخ مجیب الرحمان کا ساتھ نہ دینے کے جرم میں قید رکھا گیا تھا۔
میں نہ کوئی سیاست دان تھا اور نہ ہی کسی سیاسی جماعت کا کارکن۔ البتہ میں یحییٰ حکومت کی درخواست پر ۱۹۷۱ء میں برطانیہ اور امریکا گیا تھا تاکہ یہ واضح کر سکوں کہ مشرقی پاکستان میں جاری جدوجہد دراصل کن دو قوتوں کے درمیان تھی۔ ایک طرف تو وہ لوگ تھے جو پاکستان کو نقصان پہنچانا چاہتے تھے اور دوسری طرف وہ جو اِس کے نظریے سے محبت کرتے تھے۔
جیل میں میرا موڈ شدید غصے، بدحواسی اور مایوسی کے امتزاج پر مبنی تھا۔ قتل کی ایک ناکام کوشش نے مجھے جسمانی معذوری سے بھی دوچار کر دیا تھا۔ اس پر مستزاد یہ کہ جو کچھ میرے عقائد اور نظریات پر مبنی تھا وہ میری آنکھوں کے سامنے مٹی میں مل چکا تھا۔ مجھ پر اس کا خاص نفسیاتی اثر مرتب ہوا تھا۔ دل میں یہ احساس بھی جاگزیں تھا کہ ہم ایک ایسی شکست سے دوچار ہوئے ہیں جس کے اثرات سے جان چھڑانا ممکن نظر نہیں آتا تھا کہ ۱۹۷۱ء میں جو تبدیلی رونما ہوئی تھی وہ میرے لوگوں کے لیے سود مند نہیں تھی۔ اس خیال نے مجھے خاصے دباؤ میں رکھا اس لیے کہ کہیں امید کی کوئی کرن دکھائی نہیں دیتی تھی۔ اس خاص ذہنی کیفیت اور فضا میں، میں نے ان واقعات سے متعلق یادداشتیں قلم بند کیں جو ۱۹۷۱ء کے سانحے پر منتج ہوئے۔
میری خواہش تھی کہ تمام تکلفات کو بالائے طاق رکھ کر دل کی بات لکھوں۔ مگر اس بات کا کم ہی یقین تھا کہ جو کچھ میں لکھ رہا ہوں وہ کبھی منظرِ عام پر آ سکے گا۔ بہرحال اس بات کو میں اپنا فرض سمجھتا تھا کہ جو کچھ دیکھا اور سنا ہے اُسے ریکارڈ پر ضرور لے آؤں۔ میں نے سچ بیان کیا ہے اور اس معاملے میں کسی دوست یا دشمن کی پروا نہیں کی ہے۔ یہ سب کچھ لکھنے کا بنیادی مقصد صرف یہ تھا کہ میں بیان کر سکوں کہ ہم اُس ریاست کی حفاظت کیوں نہ کر سکے جو کروڑوں انسانوں کے خوابوں کی تعبیر تھی اور جس کے حصول کے لیے ہم نے بے حساب خون، پسینہ اور آنسو بہائے تھے۔ منافقوں کی موقع پرستی سے بھی میں بہت رنجیدہ تھا۔ میں نے ایسے بھی بہت سے لوگ دیکھے تھے جو آخری لمحات تک متحدہ پاکستان کے حامی تھے، مگر بنگلہ دیش کے معرضِ وجود میں آنے کے بعد ’’فاتحین‘‘ کو یقین دلانے میں مصروف ہو گئے کہ انہوں نے بھی اسی دن کا خواب دیکھا تھا۔
میں نے ۷۱۔۱۹۷۰ء میں بنگلہ دیش کے قیام کی تحریک کی مخالفت کی تھی۔ تاہم میں اس بات پر یقین رکھتا ہوں کہ مشرقی بنگال کے مسلمانوں کو علیحدہ شناخت دے کر بنگالی قوم پرستی ہمیں ایک قوم کی حیثیت سے ضروری استحکام فراہم کر سکتی ہے۔ کسی بھی مسئلے کا حل مایوسی نہیں۔ ہمیں ہر حالت میں اپنے وجود پر یقین رکھنا ہے۔
جن پر میں نے تنقید کی ہے، انہیں اگر میری زبان اور لہجے میں سختی محسوس ہو تو خیال رہے کہ میں نے یہ کتاب شدید (ذہنی و نفسیاتی) دباؤ میں لکھی تھی۔ انہیں محسوس کرنا چاہیے کہ جب خواب بکھرتے ہیں تو دل پر کیا گزرتی ہے۔ کتاب میں جابجا بیان کا خلا سا محسوس ہوگا، جس کی توضیح سے زیادہ، معذرت مناسب ہے۔ کتاب کا اختتام بھی آپ کو خاصا بے ربط سا محسوس ہوگا، اس کے لیے بھی میں معذرت خواہ ہوں۔
کتاب میں رہ جانے والا خلا میں ۵ دسمبر ۱۹۷۳ء کو جیل سے رہائی پانے کے بعد دور کرسکتا تھا۔ مجھے یقین تھا کہ جیل میں رہائی کی امید کے نہ ہونے کی کیفیت میں، جو کچھ میں نے لکھا وہ گھر کی آزاد فضا میں لکھی جانے والی باتوں سے بہت مختلف ہو گا۔ میں اس کتاب میں ۲۵ مارچ ۱۹۷۱ء کے کریک ڈاؤن میں ذوالفقار علی بھٹو کے کردار پر بھی پوری تفصیل سے بحث نہیں کر سکا۔ میں یہ بھی بیان نہیں کر پایا کہ اس کریک ڈاؤن کی نوعیت کیا تھی؟ پاکستانی فوج نے دسمبر ۱۹۷۰ء سے ۲۵ مارچ ۱۹۷۱ء تک علیحدگی کی تحریک کو کچلنے کے لیے کوئی بھی قدم کیوں نہیں اٹھایا؟ اور پھر اچانک حرکت میں کیوں آگئی، جبکہ اس کریک ڈاؤن کے مؤثر ہونے کا خود اسے بھی کم ہی یقین تھا؟۔ ۱۹۷۰ء کے انتخابات پر بھی میں کھل کر روشنی نہیں ڈال سکا جو مشرقی پاکستان کے لوگوں کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے لیے منعقد کیے گئے تھے۔ جو شخص ۱۹۷۰ء میں زندہ و موجود رہا ہو اور اب بھی ان واقعات کو یاد کر سکتا ہو اُسے اندازہ ہو گا کہ عوامی لیگ نے انتخابات میں بھاری اکثریت پانے کے لیے کس طرح مخالفین کے خلاف بھرپور عسکری طاقت کا استعمال کیا۔ ظاہر ہے کہ اس کا مقصد فتح سے بڑھ کر، واک اوور حاصل کرنا تھا۔ لوگوں کو یہ بھی اچھی طرح یاد ہو گا کہ کھلنا اور دیگر ساحلی علاقوں میں ۱۹۷۱ء کے خوفناک سمندری طوفان کے نتیجہ میں ایک لاکھ سے زائد ہلاکتوں کے باوجود، شیخ مجیب الرحمن نے انتخابات کے انعقاد پر اصرار کیا تھا اور یحییٰ خان کو دھمکی دی تھی کہ انتخابات شیڈول کے مطابق نہ ہوئے تو ملک گیر احتجاج کیا جائے گا۔
یہ اور بہت سے دوسرے واقعات مَیں اس لیے بیان نہیں کر سکا کہ ہمیں یہ عندیہ مل چکا تھا کہ ہم دسمبر ۱۹۷۳ء میں عام معافی کے تحت رہا کر دیے جائیں گے۔ پہلے میں نے یہ سوچا تھا کہ جیل سے باہر نکلنے پر مسوّدے میں اضافہ نہیں کروں گا، مگر پھر یہ سوچا کہ مشرقی پاکستان کے سقوط کا سبب بننے والے واقعات کے بارے میں رائے دینا ضروری ہے، خواہ بیان بے ربط ہی لگے۔
۱۹۷۵ء میں، میں سعودی عرب جانے کے لیے، پہلے لندن روانہ ہوا، اس وقت میں نے کتاب کا مسوّدہ عجلت میں ٹائپ کروا کے ایک دوست کے حوالے کر دیا۔ تاکہ یہ کہیں گم نہ ہو جائے۔ میں اپنے اس دوست کا شکر گزار ہوں کہ اس نے ۲۰ سال تک مسوّدے کو سنبھال کر رکھا۔ کہیں ۱۹۹۲ء میں جاکر مجھے اس کی اشاعت کا خیال آیا۔
(پروفیسر ڈاکٹر سید سجاد حسین کی انگریزی تصنیف The Wastes of Time: Reflections on the Decline and Fall of East Pakistan کے اردو ترجمہ کے پیش لفظ سے چند پارے)
آپ کا ردعمل کیا ہے؟