نوجوان خطّہ عرب کے کسی حکیم کی مجلس میں آیا اور اس سے پوچھا کہ کام یابی کا راز کیا ہے؟
صدیوں سے انسان کہانی کہنے اور سننے میں دل چسپی رکھتا ہے۔ خاص طور پر قدیم دور کی دل فریب اور سبق آموز حکایات نے فرد اور معاشروں کو متاثر کیا ہے۔ یہ حکایات ہمیں سیکھنے، سمجھنے کا موقع دیتی ہیں اور زندگی گزارنے کے اصول بھی بتاتی ہیں۔ اکثر حکایات مختلف خطّوں کی دانا […]
صدیوں سے انسان کہانی کہنے اور سننے میں دل چسپی رکھتا ہے۔ خاص طور پر قدیم دور کی دل فریب اور سبق آموز حکایات نے فرد اور معاشروں کو متاثر کیا ہے۔ یہ حکایات ہمیں سیکھنے، سمجھنے کا موقع دیتی ہیں اور زندگی گزارنے کے اصول بھی بتاتی ہیں۔ اکثر حکایات مختلف خطّوں کی دانا و بینا شخصیات اور صاحبانِ بصیرت سے منسوب ہیں تاہم کسی داستان، قصّہ و حکایت کے بارے میں یہ یقین سے نہیں کہا جاسکتا کہ اسے پہلی مرتبہ کس نے الفاظ کا جامہ پہنایا اور اس کا پس منظر یا محرکات کیا تھے۔ یہ سب متنازع فیہ رہا ہے اور یہ بھی ایک ایسی ہی حکایت ہے جو سینہ بہ سینہ منتقل ہوتی رہی ہے اور آج کتابوں میں محفوظ ہے۔
کہتے ہیں کہ ایک نوجوان خطّہ عرب کے کسی حکیم (دانا شخص) کی مجلس میں آیا اور اس سے پوچھا کہ کام یابی کا راز کیا ہے۔ حکیم نے اس نوجوان کی بات سنی اور بولا: ‘تم مجھے دن کے وقت دریا کے قریب ملو تو تمھارے سوال کا جواب دے سکوں گا۔’
اگلے دن وہ دانا حکیم دریا پر پہنچا تو وہاں نوجوان کو اپنا منتظر پایا۔ اس نے مسکرا کر نوجوان سے کہا: ‘مجھے یقین ہے کہ آج تم کام یابی کا راز ضرور جان جاؤ گے۔’ یہ کہہ کر اس نے نوجوان کا ہاتھ مضبوطی سے تھام لیا اور کہا کہ انھیں دریا میں اترنا ہوگا۔ نوجوان اس کے ساتھ آگے بڑھا یہاں تک کہ وہ دریا کے پانی میں کمر تک ڈوب گئے۔ نوجوان اس وقت تک تو مطمئن نظر آرہا تھا، لیکن پھر اس دانا شخص نے نوجوان کی کلائیوں پر اپنی گرفت سخت کردی اور کچھ آگے بڑھا تو پانی لگ بھگ ان دونوں کی گردن تک آگیا۔ اب نوجوان گھبرا گیا اور چیخنا شروع کر دیا۔ وہ اس دانا شخص کو دریا سے باہر نکلنے کے لیے کہہ رہا تھا۔ مگر یوں لگتا تھا کہ وہ شخص جیسے اس کی فریاد سن ہی نہیں رہا۔
بچوں کی کہانیاں
نوجوان نے یہ دیکھا تو ہاتھ پیر مارنے لگا اور پانی سے باہر نکلنے کی جدوجہد شروع کر دی۔ وہ کوشش کررہا تھا کہ کسی طرح اس دانا شخص کی گرفت سے خود کو آزاد کروا لے۔ لیکن اوّل تو وہ دریا میں اس دانا شخص کی طرح اپنا توازن برقرار رکھنے میں ناکام ہو رہا تھا اور دوسری طرف نوجوان نے محسوس کیا کہ وہ دانا شخص اس کے مقابلے میں قوی ہے اور ہاتھوں پر اُس کی گرفت بہت مضبوط ہے۔ نوجوان حیرت اور بے بسی سے اس دانا شخص کو دیکھنے لگا۔ کچھ وقت گزرا تو نوجوان کا جسم سرد پڑنے لگا۔ تب اچانک اس نے اپنا پورا زور لگایا اور لمحوں میں خود کو اس شخص کی گرفت سے آزاد کروانے میں کام یاب ہوگیا۔
اب دونوں ایک دوسرے سے کچھ فاصلہ پر تھے اور نوجوان اپنا توازن برقرار رکھتے ہوئے بمشکل مگر تیزی سے کنارے کی طرف بڑھا۔ اس نے دیکھا کہ وہ آدمی بھی اس کے پیچھے آرہا ہے۔ جب نوجوان ہانپتا کاپنتا کنارے پر پہنچا تو زمین پر لیٹ گیا اور لمبے لمبے سانس لینے لگا۔ اتنے میں وہ دانا شخص بھی اس کے سَر پر پہنچ گیا اور اس کی طرف مسکرا کر دیکھا۔ نوجوان کو حیرت ہورہی تھی کہ اس شخص نے ایسا کیوں کیا؟ وہ ڈوب بھی سکتا تھا۔ تب اس دانا آدمی نے نوجوان سے پوچھا، ‘تم پانی میں مجبور اور بے بس ہوگئے تھے تو سب سے بڑی خواہش کیا تھی؟ نوجوان نے جواب دیا، ” ظاہر ہے میں فراوانی سے ہوا چاہتا تھا اور سانس لینا چاہتا تھا۔’ سقراط نے کہا، ’’یہی کام یابی کا پہلا زینہ ہوتا ہے کہ کوئی انسان ایک خواہش کرے اور پھر اس کی جستجو میں نکل پڑے۔ دریا سے باہر نکلنا تمھاری کام یابی ہے اور اس کام یابی کا راز تمھارا وہ جذبہ ہے جس کا اظہار تم نے پوری شدت کے ساتھ کیا اور تم کام یاب ہوئے۔’
آپ کا ردعمل کیا ہے؟