مشہور فلمی اداکار ساون کا تذکرہ جسے غرور اور لالچ لے ڈوبا
فلمی دنیا کے کئی ستارے ایسے ہیں جنھوں نے شہرت اور مقبولیت کے ساتھ اپنے فلمی کیریئر میں خوب دولت بھی سمیٹی، لیکن بددماغی اور لالچ انھیں لے ڈوبی۔ اداکار ساون نے پاکستان کی فلمی صنعت کے عروج کے زمانہ میں بے مثال شہرت پائی اور حیرت انگیز کام یابیاں حاصل کیں۔ وہ ایک ایکسٹرا […]
فلمی دنیا کے کئی ستارے ایسے ہیں جنھوں نے شہرت اور مقبولیت کے ساتھ اپنے فلمی کیریئر میں خوب دولت بھی سمیٹی، لیکن بددماغی اور لالچ انھیں لے ڈوبی۔ اداکار ساون نے پاکستان کی فلمی صنعت کے عروج کے زمانہ میں بے مثال شہرت پائی اور حیرت انگیز کام یابیاں حاصل کیں۔ وہ ایک ایکسٹرا سے چوٹی کے ولن بنے اور پھر کیریکٹر ایکٹر تک صفِ اوّل کے اداکاروں میں شمار کیے گئے، لیکن ان کا انجام اچھا نہیں ہوا۔
اداکار ساون دراز قد اور تنو مند ہی نہیں تھے بلکہ گرج دار آواز کے مالک بھی تھے۔ ایک وقت تھا جب ان کے ڈیل ڈول اور شخصیت کو دیکھتے ہوئے بھی فلم میں ان کا کردار لکھا جاتا تھا۔ وقت بدلا تو چوٹی کے اس ولن کو گزر بسر اور اخراجات کے لیے چھوٹے موٹے کردار بھی قبول کرنا پڑے۔ اداکار ساون 6 جولائی 1998ء کو وفات پاگئے تھے۔ 60 اور 70 کے عشرے میں پاکستان کی فلم انڈسٹری میں ساون کو بہترین اداکار اور مقبول ولن کے طور پر اردو اور پنجابی فلموں میں کاسٹ کیا جاتا تھا۔
ساون کا اصل نام ظفر احمد بٹ تھا۔ وہ اپریل 1920ء کو سیالکوٹ میں پیدا ہوئے۔ ان کا تعلق ایک غریب گھرانے سے تھا۔ کہتے ہیں کہ انھوں نے دوسری جنگِ عظیم میں برٹش آرمی میں شمولیت اختیار کرلی تھی، فوج کی نوکری سے فارغ ہوئے تو روزی روٹی کمانے کے لیے تانگہ چلانے لگے، لیکن قسمت نے یاوری کی اور وہ پاکستانی فلم انڈسٹری سے وابستہ ہوگئے جہاں شہرت اور دولت گویا ان کی منتظر تھی۔
ساون کی شخصیت اور ان کا ڈیل ڈول کچھ ایسا تھا کہ وہ سب کے درمیان الگ ہی دکھائی دیتے۔ ان کے گھنے سیاہ اور گھنگھریالے بال بھی ان کی خاص پہچان تھے۔ گورے چٹے اور کسرتی جسم کے مالک ساون فلم نگری میں قدم رکھنے سے قبل 1950ء میں کراچی میں ایک معمار کی حیثیت سے کام کرنے پہنچے۔ اس کے علاوہ بھی وہ دوسرے چھوٹے موٹے کام اور ہر قسم کی مزدوری کر کے چار پیسے بنا لیتے تھے۔ اسی دوران شہر کے ایک سنیما کے ملازمین سے ان کی دوستی ہوگئی۔ ان کے کہنے پر ساون کو فلموں میں کام کرنے کا شوق ہوا۔ انھیں فلم اسٹوڈیوز کے چکر تو لگانے پڑے لیکن یہ ریاضت رائیگاں نہ گئی اور فلم ’’کارنامہ‘‘ میں ساون کو کردار نبھانے کا موقع مل ہی گیا۔ یہیں ان کو ساون کا نام دے دیا گیا اور پھر کسی نے لاہور جا کر قسمت آزمانے کا مشورہ دیتے ہوئے کہاکہ وہ اپنی شخصیت اور گرج دار آواز کی وجہ سے پنجابی فلموں میں زیادہ کام یاب ہو سکتے ہیں۔ ساون نے لاہور کا قصد کیا اور ایک روز وہاں آغا حسینی کی فلم ’’سولہ آنے‘‘ میں ایک چھوٹا سا کردار حاصل کرنے میں کام یاب ہوگئے۔ اس فلم کے بعد ساون کو فلم ’’سورج مکھی‘‘ میں کام کرنے کا موقع ملا جس نے انھیں ایک مقبول اداکار بنا دیا۔ اس کے بعد ساون کو بطور ولن کام ملنے لگا اور کام یابی ان کا مقدر بنتی رہی۔
ساون نے کئی اردو فلموں کے علاوہ پنجابی فلموں میں بھی مرکزی کردار ادا کیے جن میں ’’بابا دینا، مالی، خزانچی، ذیلدار، ہاشو خان، خان چاچا، جگری یار، گونگا، پہلوان جی ان لندن‘‘ شامل ہیں۔ پنجابی زبان میں ان کی کام یاب فلموں میں ’’شیراں دے پتر شیر، جانی دشمن، ملنگی، ڈولی، چن مکھناں، سجن پیارا، بھریا میلہ، اور پنج دریا‘‘ کے نام سرفہرست ہیں۔
ابتدائی فلموں کے بعد جب ساون نے فلم بینوں کی توجہ حاصل کرلی تو انھیں ولن کے طور پر کاسٹ کیا جانے لگا اور اس روپ میں انھیں خوب شہرت ملی۔ ساون کی فلمیں کام یاب ثابت ہوئیں۔ ان کی مقبولیت کو دیکھتے ہوئے فلم ساز ان سے رابطہ کرنے لگے۔ انھیں اچھا معاوضہ دیا جاتا تھا، لیکن اپنی مانگ اور ایسی پذیرائی نے اداکار ساون کو بد دماغ بنا دیا۔ وہ کسی کو اہمیت دینے کو تیار نہ تھے اور اب فلم سازوں سے بھاری معاوضے کا مطالبہ کرنے لگے تھے۔ یہی لالچ انڈسٹری میں ان کے زوال کا سبب بنی۔ بعد میں اداکار ساون اکثر اپنے احباب سے بھی کہتے تھے کہ "میں بہت متکبر ہو گیا تھا اور انسان کو انسان نہیں سمجھ رہا تھا۔” اس دور میں کئی کام یاب فلمیں دینے والے ساون سے فلم ساز گریز کرنے لگے اور پھر انھیں اہم کردار ملنا بند ہوگئے۔ کہتے ہیں کہ زندگی کے آخری ادوار میں ان کے پاس کوئی کام نہیں تھا اور وہ گھر تک محدود ہوگئے تھے۔
آپ کا ردعمل کیا ہے؟