قصّہ پوسٹ گریجویٹ بلڈنگ کی افتتاحی تقریب کا!

ہمارا بہت عرصہ سے مطالبہ تھا کہ سرسید گرلز کالج میں پوسٹ گریجویٹ کلاسیں ہونی چاہییں۔ ہماری ہزاروں بچیاں محض اس لیے تعلیم چھوڑ دیتی ہیں کہ وہ یونیورسٹی نہیں جا سکتیں۔ نعمت اللہ خان نے ہمارے اس مطالبہ کے پیشِ نظر پوسٹ گریجویٹ کلاسوں کے لیے باقاعدہ الگ ایک بڑی عمارت کا آغاز کروایا، […]

 0  3
قصّہ پوسٹ گریجویٹ بلڈنگ کی افتتاحی تقریب کا!

ہمارا بہت عرصہ سے مطالبہ تھا کہ سرسید گرلز کالج میں پوسٹ گریجویٹ کلاسیں ہونی چاہییں۔ ہماری ہزاروں بچیاں محض اس لیے تعلیم چھوڑ دیتی ہیں کہ وہ یونیورسٹی نہیں جا سکتیں۔

نعمت اللہ خان نے ہمارے اس مطالبہ کے پیشِ نظر پوسٹ گریجویٹ کلاسوں کے لیے باقاعدہ الگ ایک بڑی عمارت کا آغاز کروایا، مگر وہ ان کے زمانے اور بعد میں مکمل نہ ہو سکا۔ پروفیسر نجمہ طیب تھیں۔ انہوں نے مصطفٰی کمال تک بھی یہ بات پہنچائی۔ فوراً ردعمل ہوا۔ بلڈنگ کی تعمیر دوبارہ شروع ہوئی۔ تیزی سے کام مکمل ہونا شروع ہوا۔ بہت جلد ایک شان دار بلاک بن کر تیار ہوگیا، تو کچھ ہی دن بعد 11 بجے میئر کراچی کے سیکریٹری کا فون آیا، آج ایک بجے کے قریب مصطفیٰ کمال افتتاح کریں گے، پوسٹ گریجویٹ بلڈنگ کا۔ انتظامات کے لیے ہمارے لڑکے پہنچ رہے ہیں۔ میئر صاحب، بہت مصروف ہیں۔ اس لیے اس کے بعد ٹائم ملنا بہت مشکل ہوگا۔

فون بند ہوتے ہی دو تین جیپ نما لوکل گورنمنٹ کی گاڑیوں میں پندرہ بیس افراد کالج پہنچ گئے۔ یہ سیدھے پوسٹ گریجویٹ بلڈنگ بلاک پہنچے۔ جو کالج کے سامنے والا گراؤنڈ پار کرنے کے بعد پچھلے حصے میں واقع ہے۔ وہیں چھوٹا سا شامیانہ اور کرسیاں لگانے کے احکامات فون پر دیتے رہے۔ انھوں نے نہایت منظم انداز سے، بہت تیزی سے انتظامات مکمل کر لیے۔ وہ فون پر جس کو بلاتے، 15 منٹ کے اندر آجاتا اور کام شروع کر دیتا۔ شامیانے، قناتیں، کرسیاں، مائک وغیرہ تو ایک طرف ایک چھوٹی سے دیوار پر میئر کراچی کا نام، افتتاح، تاریخ سب دو گھنٹے میں مکمل ہوگیا۔ مستری اور مزدور اپنے ساتھ اینٹیں، سیمنٹ، بجری لائے تھے۔ تھوڑی ہی دیر میں دیوار تیار، اسی دوران نام وغیرہ کی تختی بھی آگئی جو دیوار میں نصب کر دی گئی۔

سب مشین کی طرح اپنے اپنے کاموں میں لگے ہوئے تھے۔ یہ سب لکھنے کا مقصد وہ حیرت ہے جس میں ہم سب مبتلا تھے۔ کالج کے پروگراموں اور جلسوں کے لیے ہم بھی انتظامات کرتے تھے، مگر مجال ہے جو کوئی ایک دفعہ بلانے پر آجائے یا اتنے کم وقت کے نوٹس پر کام ہو جائے۔ ہفتوں پہلے سے فون، رابطے، جان پہچان شروع کرتے تھے۔ تب وقت پر کام ہوتا تھا اور وہ بھی پروگرام سے ایک دن پہلے، صبح سے شام ہو جاتی تھی تیاری میں۔ میڈم نے میئر صاحب کے ہراول دستے سے پوچھا کہ مجھے بتا دیں کتنے لوگوں کا ریفرشمنٹ کرنا ہے؟ اس نے ’اوہ!‘ کہہ کر ماتھے پر ہاتھ مارا، کہنے لگا، بالکل ذہن سے نکل گیا۔ میڈم آپ زحمت نہ کریں، ہم ابھی کرتے ہیں۔ فوراً پھر ایک فون کیا، مطمئن ہو کر ہم سے کہا۔ آدھے گھنٹے میں سارا سامان آجائے گا۔ ہم نے اس موقع پر انتہائی اطمینان سے لطف اٹھایا۔ کسی بھی قسم کی کوئی فکر ہی نہ تھی۔ دل چاہتا تھا اپنے تمام پروگراموں کا ذمہ دار انہیں ہی بنا دیں۔ لوگ چاہے ان فرماں برداریوں کو خوف یا ڈر کا نام دیں۔ ہم نے تو تنظیمی احساسِ ذمہ داری پایا۔ یہ ساری باتیں ہمارے لیے ناقابلِ یقین تھیں۔ اصل بات تو پوسٹ گریجویٹ کلاسوں کے لیے بنائی جانے والی شان دار عمارت کے افتتاح کی تھی۔

دو ڈھائی بجے کے درمیان میئر کراچی مصطفیٰ کمال نے آکر ہمارے پوسٹ گریجویٹ بلاک کے گیٹ پر بندھا ہوا ربن کاٹ دیا۔ وہ انتظار کروانے کی معذرت کر رہے تھے۔ ہم سب شکریہ ادا کر رہے تھے اور کلاسوں کے آغاز کے لیے پرنسپل کو اپنی حمایت کا یقین دلا رہے تھے۔

(از قلم پروفیسر فرحت عظیم)

آپ کا ردعمل کیا ہے؟

like

dislike

love

funny

angry

sad

wow