انگریزی زبان سے متعلق فرانسیسی ماہر لسانیات کا حیرت انگیز دعویٰ
فرانسیسی ماہر لسانیات برناڈ سرکیگنی نے دعویٰ کیا ہے کہ انگریزی بذات خود کوئی زبان نہیں بلکہ یہ بُرے لہجے میں بولی جانے والی فرانسیسی زبان ہے۔ انگریزی یا انگلش اس وقت دنیا میں بولی جانے والی سب سے بڑی زبان ہے جس کو عالمی سطح پر رابطوں کی زبان بھی کہا جاتا ہے لیکن […]
فرانسیسی ماہر لسانیات برناڈ سرکیگنی نے دعویٰ کیا ہے کہ انگریزی بذات خود کوئی زبان نہیں بلکہ یہ بُرے لہجے میں بولی جانے والی فرانسیسی زبان ہے۔
انگریزی یا انگلش اس وقت دنیا میں بولی جانے والی سب سے بڑی زبان ہے جس کو عالمی سطح پر رابطوں کی زبان بھی کہا جاتا ہے لیکن فرانس کے ایک ماہر لسانیات برناڈ سرکیگنی نے اپنی نئی کتاب میں دعویٰ کیا ہے کہ انگریزی کوئی زبان نہیں بلکہ یہ بُرے لہجے میں بولی جانے والی فرانسیسی زبان ہے۔
برناڈ نے ساتھ ہی اس خواہش کا بھی اظہار کیا ہے کہ وہ اس حوالے سے لکھی گئی اپنی نئی کتاب کو برطانیہ کے بادشاہ شاہ چارلس سوم کو بھی بھیجنا چاہیں گے تاکہ انہیں صبح کی چائے کے دوران اپنی زبان سے متعلق حقیقت جان کر حیرت کا جھٹکا لگے۔
برناڈ کی انگلش کے حوالے سے لکھی گئی یہ کتاب ’’انگریزی کوئی زبان نہیں، یہ بُرے لہنے میں بولی جانے والی فرانسیسی زبان ہے‘‘، طنز ومزاح پر مشتمل کتاب ہے۔
اشتعال انگیز عنوان اور طنز و مزاح کے ذریعے ممتاز تعلیمی ماہر 1066 میں نارمن کی فتح کے بعد سے کراس چینل لسانی الجھن کو بیان کرنے کی امید رکھتے ہیں اور یہ بھی کہ ’انگریزی‘ کے خلاف فرانسیسی مزاحمت کتنی مضحکہ خیز ہو سکتی ہے۔
کتاب کے مصنف نے اے ایف پی سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ آپ میری کتاب کو انگریزی زبان کے لیے خراج عقیدت کے طور پر بھی دیکھ سکتے ہیں، جو بہت سارے الفاظ اپنانے میں کامیاب رہی ہے۔
برناڈ کا کہنا ہے کہ انگریزی زبان کے نصف الفاظ سنہ 1260 سے 1400 تک فرانسیسی زبان سے ادھار لیے گئے۔ ان میں ’بیچلر‘، ’کلاک‘ اور ’ٹریول‘ جیسے الفاظ شامل ہیں جن کا ماخذ فرانسیسی تھا۔
آپ کا ردعمل کیا ہے؟