بے فکری کا زور (حکایت)
ایک دن اکبر بادشاہ دربار لگائے بیٹھا تھا کہ ایک ہاتھی کے بے قابو ہو کر چھوٹ جانے سے ’’ہٹو بچو‘‘ کا غل ہونے لگا۔ بادشاہ نے کھڑکی کی طرف منہ کیا تو کیا دیکھتا ہے کہ ایک نوجوان نے دوڑتے ہوئے ہاتھی کی دُم پکڑ کر اسے رکنے پر مجبور کردیا ہے۔ بادشاہ نے […]
ایک دن اکبر بادشاہ دربار لگائے بیٹھا تھا کہ ایک ہاتھی کے بے قابو ہو کر چھوٹ جانے سے ’’ہٹو بچو‘‘ کا غل ہونے لگا۔ بادشاہ نے کھڑکی کی طرف منہ کیا تو کیا دیکھتا ہے کہ ایک نوجوان نے دوڑتے ہوئے ہاتھی کی دُم پکڑ کر اسے رکنے پر مجبور کردیا ہے۔
بادشاہ نے بیربل کو اس کی شہ زوری کا تماشا دکھا کر پوچھا۔ ’’کچھ سوچو تو سہی۔ اس میں اتنا زور کہاں سے آگیا۔‘‘
بیربل نے عرض کی۔ ’’جہاں پناہ! یہ صرف بے فکری کا زور ہے۔ اپنے کام اور معاش کی فکر میں مبتلا یا کوئی پریشان حال ہوتا تو اس کے لیے یہ آسان نہ تھا۔‘‘
بادشاہ کو وزیر کی اس بات پر تعجب ہوا۔ وہ سوچنے لگا کہ واقعی کوئی ہر طرف سے بے فکر اور آزاد ہو تو اس میں اتنی قوت پیدا ہوجاتی ہے۔ بیربل نے دیکھا کہ بادشاہ کسی سوچ میں گم ہے تو اس نے بھانپ لیا کہ وہ اس کی بات پر شبہ میں پڑ گیا ہے۔ بیربل نے فوراً اس شہ زور کو دربار میں بلوا لیا اور کہا۔ ’’جہاں پناہ تمہاری شہ زوری دیکھ کر بہت خوش ہوئے۔ آج سے ایک روپیہ روزانہ تمہیں تنخواہ ملا کرے گی اور کام صرف یہ ہے کہ شہر کے باہر فلاں خانقاہ پر عین شام کے وقت چراغ جلا آیا کرو۔ لیکن یاد رہے کہ اگر ایک دن بھی وقت سے آگے پیچھے پہنچو گے تو پھانسی دے دی جائے گی۔
نوجوان سن کر آداب بجا لایا اور ہدایت کے مطابق ہر روز خانقاہ پر چراغ جلانے لگا۔ مگر تھوڑے دن گزرے تھے کہ کہیں کسی کا بیل چھوٹ گیا۔ اتفاق سے اس نوجوان نے جو خانقاہ پر چراغ جلانے جارہا تھا، یہ منظر دیکھ لیا اور اس بیل کی بھی دُم پکڑنی چاہی تو اس میں ناکام ہوا۔ وہ بیل کو تو کیا روکتا، اس کے ساتھ خود ہی دور تک گھسٹتا ہوا چلا گیا۔ بیل کی دُم اس نوجوان کے ہاتھوں سے چھوٹ گئی اور بیل بھاگا تو یہ دھم سے زمین پر آگرا۔
کسی نے یہ ماجرا بیربل تک پہنچا دیا اور بیربل نے بادشاہ کو یہ بات بتائی۔ تب، اکبر بیربل کی ذہانت کا قائل ہوگیا اور کہا، واقعی فکرمندی بڑی بری چیز ہے۔‘‘
(ہندوستانی حکایات سے انتخاب)
آپ کا ردعمل کیا ہے؟