اسلم پرویز کا تذکرہ جنھیں ‘‘قاتل’’ نے پہچان دی!
پچاس کی دہائی میں پاکستانی فلمی صنعت میں اداکار اسلم پرویز نے قدم رکھا تو کوئی نہیں جانتا تھا کہ بطور ہیرو ہی وہ مقبول نہیں ہوں گے بلکہ ایک ولن کے روپ میں بھی فلم بین انھیں بہت پسند کریں گے۔ اسلم پرویز نے اپنے فنی سفر کا آغاز فلم ‘‘قاتل’’ سے کیا تھا […]
پچاس کی دہائی میں پاکستانی فلمی صنعت میں اداکار اسلم پرویز نے قدم رکھا تو کوئی نہیں جانتا تھا کہ بطور ہیرو ہی وہ مقبول نہیں ہوں گے بلکہ ایک ولن کے روپ میں بھی فلم بین انھیں بہت پسند کریں گے۔ اسلم پرویز نے اپنے فنی سفر کا آغاز فلم ‘‘قاتل’’ سے کیا تھا اور بعد کے برسوں میں ورسٹائل اداکار کے طور پر پہچانے گئے۔
شہرت اور مقبولیت کی دوڑ میں اسلم پرویز نے جلد ہی فلم انڈسٹری کے کئی ناموں کو پیچھے چھوڑ دیا۔ مگر اسی تیز رفتاری سے موت نے بھی ان کی زندگی کو مات دے دی۔ اسلم پرویز 1984ء میں آج ہی کے دن ایک ٹریفک حادثے میں چند روز زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا رہنے کے بعد انتقال کرگئے تھے۔ اسلم پرویز ایک فلم کی شوٹنگ کے بعد ساتھی فن کار اقبال حسن کے ساتھ گھر لوٹ رہے تھے کہ سڑک پر حادثہ پیش آیا۔ اقبال حسن موقع پر جاں بحق ہوگئے تھے۔
اسلم پرویز لاہور کا دل کہلانے والے مال روڈ پر ایک کوٹھی میں پل کر جوان ہوئے تھے۔ ایک خوش حال گھرانے کا فرد ہونے کی وجہ سے ان کی تعلیم ایک انگریزی اسکول میں ہوئی جہاں تعلیم کے ساتھ کرکٹ اور دیگر کھیلوں کے علاوہ ڈرامہ اور میوزک کے حوالے سے بھی سرگرمیاں ہوا کرتی تھیں۔ اسی نے فنون لطیفہ سے اسلم پرویز کی دل چسپی پیدا کی۔ لیکن حالات بدلے تو اس کنبے کو مال روڈ کا گھر چھوڑ کر انڈس ہوٹل کے عقب میں واقع وکٹوریہ پارک کی طرف منتقل ہونا پڑا۔ اب وہ اسلامیہ ہائی اسکول بھاٹی گیٹ کے طالب علم بن گئے۔ اسلم پرویز کے گھر والوں نے 1953ء میں ان کی شادی کر دی جب کہ ان کی فلم ’’قاتل‘‘ 1955ء میں ریلیز ہوئی۔ گھر والوں اور اسلم پرویز کی زوجہ کو فلم میں ان کا کام کرنا پسند نہ تھا۔ لیکن اسلم پرویز اپنی آنکھوں میں کچھ خواب سجا چکے تھے اور قسمت ان کا ساتھ دے رہی تھی۔ انھوں نے اگلے برسوں میں مزید فلمیں کیں۔ اسلم پرویز کی فلم نگری میں آمد نام ور ہدایت کار انور کمال پاشا کی بدولت ہوئی جنھوں نے اسلم پرویز کو معروف فلم ساز آغا جی اے گل سے ملوایا تھا۔ اس وقت وہ فلم قاتل کے لیے کسی نئے چہرے کو آزمانا چاہتے تھے اور یوں پہلی بار اسلم پرویز نے ہیرو کے روپ میں کیمرے کا سامنا کیا۔ اس فلم کے بعد انھیں مزید آفرز ہونے لگیں اور پاکستان فلم انڈسٹری کے ابتدائی دور کا یہ باکمال اداکار بہ طور ہیرو فلم پاٹے خان، کوئل، شیخ چلی، چھومنتر، نیند اور عشق پر زور نہیں میں نظر آیا اور فلم بینوں سے خوب داد سمیٹی۔ وہ ایک باکمال اداکار تھے اور بعد میں سلور اسکرین پر انھوں نے ولن کے روپ میں بھی بے مثال اداکاری کی اور خود کو ورسٹائل فن کار کے طور پر منوایا۔ اداکار اسلم پرویز نے تین سو سے زائد فلموں میں کام کیا۔
آپ کا ردعمل کیا ہے؟