استاد بڑے غلام علی خاں: کلاسیکی موسیقی کے عظیم فن کار کا تذکرہ

استاد بڑے غلام علی خاں کو برصغیر کا عظیم موسیقار اور ایسا فن کار کہا جاتا ہے جنھوں‌ نے کلاسیکی موسیقی کو خواص اور عوام دونوں‌ میں متعارف کروایا اور اپنے فن کی داد پائی۔ آج استاد بڑے غلام علی خاں کی برسی ہے۔ استاد بڑے غلام علی خاں ایک گوّیے اور موجد دونوں حیثیتوں […]

 0  3
استاد بڑے غلام علی خاں: کلاسیکی موسیقی کے عظیم فن کار کا تذکرہ

استاد بڑے غلام علی خاں کو برصغیر کا عظیم موسیقار اور ایسا فن کار کہا جاتا ہے جنھوں‌ نے کلاسیکی موسیقی کو خواص اور عوام دونوں‌ میں متعارف کروایا اور اپنے فن کی داد پائی۔ آج استاد بڑے غلام علی خاں کی برسی ہے۔

استاد بڑے غلام علی خاں ایک گوّیے اور موجد دونوں حیثیتوں میں مستند استاد تسلیم کیے گئے۔ ہندوستان کے بڑے بڑے گانے والے اُن کے مداح رہے اور گائیکی میں انھیں استاد مانتے ہیں۔ ہندوستان میں بڑے خاں صاحب کے فن کی عظمت کا اعتراف کس نے نہیں کیا۔ اس دور میں‌ جب یہاں‌ آواز ریکارڈ کروانے کا سلسلہ شروع ہوا تو بڑے خاں صاحب نے بیسیوں راگ ریکارڈ کروائے اور یہ تین، تین منٹ کے ریکارڈ تھے جنھیں گاتے ہوئے ان کے ہم عصر گویّے اکثر صبح سے شام کر دیا کرتے تھے۔ صحافی اور محقق طاہر سرور میر لکھتے ہیں: ساٹھ کی دہائی میں ہدایت کار کے آصف فلم ’مغل اعظم‘ بنا رہے تھے۔ فلم کے ایک منظر میں شاہی گویے میاں تان سین کی آواز کی ضرورت پڑی تو میوزک ڈائریکٹر نوشاد نے کے آصف سے کہا کہ تان سین کی آواز کے لیے ہمیں آج کے تان سین استاد بڑے غلام علی خاں سے درخواست کرنی چاہیے لیکن بڑے خاں صاحب سے رابطہ کیا گیا تو انھوں نے انکار کر دیا کیونکہ وہ فلمی میوزک کو اپنے شایان شان خیال نہیں کرتے تھے۔ استاد نے کہا کہ کلاسیکی موسیقی عوام کا نہیں خواص کا فن ہے، یہ میلوں ٹھیلوں اور نوٹنکیوں کے لیے نہیں۔ اسے سننے کے لیے دو سے تین سو اہل ذوق خاص طور پر محفل سجاتے ہیں، اس پر نوشاد نے کہا کہ استاد محترم اپنے عظیم فن سے ہندوستان کے 45 کروڑ عوام ( اس وقت انڈیا کی آبادی) کو محروم نہ کیجیے۔ قصہ مختصر ’مغل اعظم‘ کے لیے استاد کی آواز ریکارڈ کرنے کا معاوضہ 25 ہزار روپے ادا کیا گیا۔ اس وقت لتا منگیشکر اور محمد رفیع جیسے مین اسٹریم سنگرز چار سے پانچ سو روپے معاوضہ وصول کر رہے تھے۔

بڑے غلام علی خاں 23 اپریل 1968ء کو حیدرآباد دکن میں انتقال کرگئے تھے اور وہیں آسودۂ خاک ہوئے۔ وہ فنِ موسیقی میں‌ مشہور پٹیالہ گھرانے کے فرد تھے۔ ان سنہ پیدائش 4 اپریل 1902ء اور آبائی شہر قصور تھا۔ ان کے دادا استاد ارشاد علی خان مہاراجہ رنجیت سنگھ کے دربار سے وابستہ اور اس کے رتنوں میں سے ایک تھے۔ بڑے غلام علی خاں‌ کے والد علی بخش خاں اور چچا کالے خاں پٹیالہ گھرانے کے مشہور موسیقار کرنیل فتح علی خان کے شاگرد تھے۔

استاد بڑے غلام علی خان نے موسیقی کی تعلیم اپنے والد استاد علی بخش خان اور چچا استاد کالے خان سے حاصل کی اور پھر استاد عاشق علی خان پٹیالہ والے کے شاگرد ہوگئے۔ ان کے فن کی شہرت جلد ہی ہندوستان بھر میں پھیل گئی جس کے بعد انھیں موسیقی کی محافل میں مدعو کیا جانے لگا۔ انھوں نے متعدد میوزک کانفرنسوں میں بھی شرکت کی اور اپنے فن کا مظاہرہ کرکے کلاسیکی موسیقی کے شائقین کی توجہ حاصل کی۔

استاد بڑے غلام علی کی انفرادیت ان کے تجربات اور گائیکی میں بعض ترامیم ہیں جو کلاسیکی موسیقی کی خوبی اور اس کا حُسن بن گئیں۔ قیامِ پاکستان کے بعد استاد بڑے غلام علی خاں نے یہاں رہنے کا فیصلہ کیا، مگر پاکستان میں ریڈیو پر بعض افسران کے رویے سے دل برداشتہ ہو کر 1954ء میں بھارت چلے گئے تھے۔ وہاں استاد بڑے غلام علی خان کو بہت پذیرائی ملی اور اپنے فن کی بدولت وہ پدم بھوشن کے علاوہ سُر دیوتا، سنگیت سمراٹ اور شہنشاہِ موسیقی جیسے خطاب و القاب سے نوازے گئے۔ انھیں‌ ڈی لٹ کی اعزازی ڈگری بھی دی گئی۔

آپ کا ردعمل کیا ہے؟

like

dislike

love

funny

angry

sad

wow