قرقاش زندہ باد!
عدالت کی کارروائی ایک دورافتادہ گاؤں کے ایک چھوٹے سے کمرے میں شروع ہوئی۔ یہ کمرہ مستطیل شکل کا تھا اور اس میں ایک گول میز اور چند کرسیوں کے سوا اور کچھ نہ تھا۔ کمرے میں موجود واحد میز پر قرآن مجید اور بائبل کا ایک ایک نسخہ رکھا تھا۔ کمرے کی عقبی دیوار […]
عدالت کی کارروائی ایک دورافتادہ گاؤں کے ایک چھوٹے سے کمرے میں شروع ہوئی۔ یہ کمرہ مستطیل شکل کا تھا اور اس میں ایک گول میز اور چند کرسیوں کے سوا اور کچھ نہ تھا۔
کمرے میں موجود واحد میز پر قرآن مجید اور بائبل کا ایک ایک نسخہ رکھا تھا۔ کمرے کی عقبی دیوار پر پیتل کی ایک تختی آویزاں تھی جس پر جلی حروف میں درج تھا: ”اعلیٰ حکومت کا ایک اصول: عدل اور انصاف۔ “
اس اجلاس کی کارروائی خفیہ رکھی گئی تھی۔ کمرۂ عدالت میں موجود سبھی مشتبہ لوگ تھے۔ سیکیورٹی زون کے قریب ہونے کی وجہ سے گاؤں کے عام لوگوں میں سے کسی کو یہاں آنے کی اجازت نہ تھی۔ یوں لگتا تھا عدالتی اہل کار حاضرین کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کر رہے ہیں۔ وہ ایک عربی کہاوت ہے کہ ”تماشائی بھی ایک تماشا ہوتا ہے۔ “ کسی ایک کی مصیبت دوسرے کے گلے بھی پڑ سکتی ہے۔ ملزمان کے نام پکارے گئے:
”شلومو بن ہیم! گدالیہ شیمتوو! حاضر ہوں !“
کمرے میں موجود لوگوں کے لئے یہ خاصی حیرت انگیز بات تھی، اب تک تو یہ عدالتوں میں صرف عربوں کے نام سننے کے عادی تھے اور اب یہاں ایک نہیں بلکہ دو دو ملزم یعنی یک نہ شد دو شد، یہ تو کمال ہوگیا۔
جج نے ملزمان سے سوال پوچھا: ”تم کہاں سے ہو؟“
”گوتاڈا سے“ ملزم نے جواب دیا۔
”تمہیں پتہ تو ہے، اس علاقے میں بغیر اجازت کے داخل ہونے کی اجازت نہیں، پھر تم پرمٹ کے بغیر یہاں کیوں آئے؟“ جج نے پھر سوال کیا۔
”ہماری گائے گم ہوگئی تھی، اسی کو تلاش کرتے ہوئے غلطی سے اس علاقے میں آگئے ہیں جناب۔ ہمیں خوف تھا، گائے کہیں غلطی سے آپ کے علاقے میں نہ داخل ہو جائے، لیکن وہی ہوا جس کا ڈر تھا۔“ ملزمان نے ایک ساتھ جواب دیا۔
”ایک ایک کر کے بات کرو، پہلے تم بولو شلومو! کیا تمہاری گائے دودھ دیتی ہے؟“ جج نے ڈانٹ پلائی۔
”بالکل دودھ دیتی تھی جی، اس کا گم ہو جانا بہت نقصان دہ ہے۔“
”گائے کے دودھ سے ڈیری کی اشیاء بنتی ہیں، آپ یہ بھی جانتے ہیں، دودھ کے بغیرہمارے بچوں کی صحت کو شدید خطرہ لاحق ہوگا۔ “
”میں سمجھ گیا، مارشل کوڈ کی ساتویں شق کے مطابق عدالت حکومتی قانون کے مطابق گائے کو تو کوئی سزا نہیں دے سکتی البتہ ملزمان کو ان کی ذمہ داریوں سے بری قرار نہیں دیا جاسکتا۔ “
”تمہیں ایک سو پنس جرمانے کی سزا سنائی جاتی ہے۔“ عدالت نے اپنا فیصلہ سنایا تو شلومو اور گدالیہ کے چہروں پرخوشی کی ایک لہر دوڑ گئی۔ جرمانے کی رقم ادا کرتے ہوئے انہوں نے ایک دوسرے کے ساتھ خفیف اور پراسرار سی مسکراہٹ کا تبادلہ کیا۔ اسی دوران عدالتی اہل کار نے آواز لگائی۔
”احمد حسین سعید! احمد حسین سعید الفہماوی!“ عدالت کے سامنے پیش ہوتے ہوئے ملزم کو ہلکی سی ٹھوکر لگی۔ اسے پہلی بار عدالت میں پیش کیا گیا تھا۔
”ہاں بھئی! کیاعمر ہے تمہاری؟“ جج نے سوال کیا۔
”جی حضور، پندرہ سال۔ “ ملزم کے چہرے پر خوف کے آثار تھے۔
”تمہیں ذکرون الیعقوب کے علاقے میں داخلے کی ہمّت کیسے ہوئی؟ کیا تم نے سنا نہیں تھا، دو سال پہلے یہاں تمہارے جیسے ایک مزدور کی آنکھ ضائع ہو گئی تھی، اگر ایسا کوئی حادثہ تمہارے ساتھ بھی پیش آجاتا تو؟“ جج عدالتی اہل کار کی طرف متوجہ ہوتے ہوئے بولا: ”اس کے باپ کو بلاؤ۔ “ اسّی پچاسی سال کا ایک بزرگ لاٹھی ٹیکتے ہوئے آگے بڑھا۔ اس سے پہلے کہ وہ عدالت کے کٹہرے میں آکر کھڑا ہوتا، جج نے غصیلے انداز میں سوال کیا: ”تم نے اسے کیوں جانے دیا؟“
”میں ایک ضعیف اور معذور آدمی ہوں، میرا خاندان سات افراد پر مشتمل ہے، یہ لڑکا جو آپ کے سامنے کھڑا ہے، عمر میں سب سے بڑا ہے۔ یہ کام نہ کرے تو گھرکا چولھا نہیں جلتا جناب۔“
جج نے اس کی بات بڑے غور سے سنی۔ اس کے بعد اس نے حکومتی قانون کی رو سےعدالت کا فیصلہ پڑھ کر سنایا: ”عدالت سمجھتی ہے کہ ملزم کا باپ بے قصور ہے، اس لئے بیٹے کو چالیس پاؤنڈ جرمانے یا بیس دن قید بامشقت کی سزا سنائی جاتی ہے“ چاروں طرف خاموشی اور سناٹا چھا گیا۔
”خالد قاسم ملاہا حاضر ہو!“ یہ آج کی عدالتی کارروائی میں تیسرا کیس تھا۔ جج نے ملزم کے بجائے اس کے باپ کو آواز دی۔ باپ حاضر ہوا تو جج نے اس سےمخاطب ہوتے ہوئے کہا: ”تمہارا بیٹا پرمٹ کے بغیرحیدرہ میں کیا کرنے گیا تھا؟“
”میں ایک معذور شخص ہوں، جیسا کہ آپ دیکھ رہے ہیں میری ایک ٹانگ نہیں ہے۔ میں کوشش کے باوجود اسے روک نہیں سکتا۔“ باپ نے جواب دیا ”ہاں ہاں، تم اسے کیسے روک سکتے ہو، بالکل سچ کہتے ہو تم، شاباش! اچھا تمہیں چالیس پاؤنڈ جرمانے یا دس دن قید بامشقت کی سزا دی جاتی ہے، ٹھیک؟“
اس وقت دوپہر کے بارہ بج کر پینتالیس منٹ ہو چکے تھے، جج کے چہرے پر تھکاوٹ کے آثار نمایاں تھے۔ ”اب ہم ام لقطف کے حسن طاہر حسن کا کیس دیکھیں گے۔“
”می لارڈ! میرا گائے کی گم شدگی کا مسئلہ تھا، وہ کہیں کھو گئی تھی۔ “ حسن بولا ”میں اپنے نقصان کے بارے میں پولیس اسٹیشن کے علاوہ اور کہاں شکایت کر سکتا تھا، ہماری آبادی تھانہ کرکور کی حد میں شامل ہے۔ آپ جانتے ہیں، یہ پولیس اسٹیشن ممنوعہ علاقے میں ہے لیکن وہاں جانے کے لئے اجازت نامے کی ضرورت نہیں۔ میں گیا اور وہاں گرفتار کر لیا گیا۔“
”تو کیا تمہاری گائے مل گئی تھی؟“ جج نے سوال کیا۔
”جی مل گئی تھی، اسے انتظامیہ نے کانجی ہاؤس میں بند کر دیا تھا۔ “ حسن نے جواب دیا۔
جج نے تھوڑے توقف کے بعد فیصلہ سنایا:”دس دن قید یا بیس پاؤنڈ جرمانہ۔“
اس سے تو بہتر تھا کہ حسن کی گائے اسے نہ ہی ملتی کیوں کہ اس کی قیمت جرمانے کی رقم سے آدھی تھی، حسن سے کھل کر اپنے غم کا اظہار بھی نہ ہوسکا کیوں کہ یہاں قرقاش کا قانون چلتا تھا۔
(مصری ادب سے اںتخاب، قرقاش ایک قدیم مصری حاکم جو اپنی ناانصافی کے لیے مشہور تھا اور عوام میں بدنام ہوا)
آپ کا ردعمل کیا ہے؟