’’غزل پر تو الزام نہ لگائیے!‘‘
شاعری، ناشاعری کی بحث کے ساتھ متشاعر بھی اردو کے اُن شعراء کے لیے ہمیشہ مسئلہ رہے ہیں جو اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ: خشک سیروں تنِ شاعر کا لہو ہوتا ہے تب نظر آتی ہے اک مصرعۂ تر کی صورت لیکن متشاعروں کو اس سے کیا وہ اپنے دل کو تو کیا […]
شاعری، ناشاعری کی بحث کے ساتھ متشاعر بھی اردو کے اُن شعراء کے لیے ہمیشہ مسئلہ رہے ہیں جو اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ:
خشک سیروں تنِ شاعر کا لہو ہوتا ہے
تب نظر آتی ہے اک مصرعۂ تر کی صورت
لیکن متشاعروں کو اس سے کیا وہ اپنے دل کو تو کیا لہو کرتے ہیں، بڑے بڑے مشاعروں میں شرکت کے لیے بھی انھیں پسینہ نہیں بہانا پڑتا اور ان کا نام شعراء کی فہرست میں شامل ہوتا ہے۔ ادبی دنیا کے لطائف، شعراء سے متعلق دل چسپ واقعات اور تذکروں میں ممتاز شاعر کنور مہندر سنگھ بیدی سحر سے منسوب ایک ایسا ہی واقعہ پڑھنے کو ملتا ہے۔ ملاحظہ کیجیے۔
1975ء کے ایک آل انڈیا مشاعرے میں ایک نوجوان شاعرہ نے اپنے حسن اور ترنم کے طفیل شرکت کا موقع حاصل کر لیا تھا۔ جب موصوفہ نے غزل پڑھی تو سارے سامعین جھوم اٹھے۔ غزل بھی اچھی تھی۔ لیکن نادانستگی میں اس شاعرہ سے زیر، زبر اور پیش کی کئی غلطیاں سرزد ہوئیں تو کنور مہندر سنگھ بیدی سحر تاڑ گئے کہ غزل کسی اور کی ہے۔
غزل سنانے کے بعد جب موصوفہ اپنی نشست پر واپس آکر جلوہ گر ہوئیں تو ایک مداح شاعر نے ان سے کہا،’’محترمہ آپ کے کلام نے واقعی مشاعرہ لوٹ لیا۔‘‘
اس پر سحرصاحب خاموش نہ رہ سکے، برجستہ تصحیح فرمائی، ’’یوں کہیے برخوردار کہ محترمہ نے مشاعرہ لوٹ لیا۔ بیچاری غزل پر تو الزام نہ لگائیے۔‘‘
یہ سن کر مداح اور شاعر دونوں زبردستی کی ہنسی ہنس کر چپ ہوگئے۔
آپ کا ردعمل کیا ہے؟