عابد علی عابد: اردو ادب کا ایک معروف نام
دمِ رخصت وہ چپ رہے عابد آنکھ میں پھیلتا گیا کاجل یہ شعر کا ہے اور ایک کیفیت کا بہترین اظہار ہے۔ عابد علی عابد 20 جنوری 1971ء کو انتقال کرگئے تھے۔ آج ان کی برسی ہے۔ وہ شاعر، نقّاد، ڈراما نگار، ناول نویس اور بہترین مترجم بھی تھے۔ انھیں اردو ادب کی ایک ہمہ […]
دمِ رخصت وہ چپ رہے عابد
آنکھ میں پھیلتا گیا کاجل
یہ شعر کا ہے اور ایک کیفیت کا بہترین اظہار ہے۔ عابد علی عابد 20 جنوری 1971ء کو انتقال کرگئے تھے۔ آج ان کی برسی ہے۔ وہ شاعر، نقّاد، ڈراما نگار، ناول نویس اور بہترین مترجم بھی تھے۔ انھیں اردو ادب کی ایک ہمہ جہت شخصیت کہا جاتا ہے۔
عابد صاحب نے طبع زاد اور تراجم پر مشتمل کئی تصانیف یادگار چھوڑی ہیں۔ انھوں نے کئی موضوعات پر جمع و تدوین کا کام بھی نہایت خوبی سے انجام دیا ہے۔ وہ ایک خوب صورت شاعر تو تھے ہی، لیکن اردو ادب میں جن شخصیات نے وسیع تر ادبی، سماجی اور تہذیبی آگہی کے ساتھ تنقید لکھی ہے ان میں عابد علی عابد کا نام سرِفہرست ہے۔ اردو، فارسی اور انگریزی زبان و ادبیات سے عابد علی عابد خوب واقف تھے۔ تدریس ان کا پیشہ تھا اور اس شعبے میں وہ ماہرِ تعلیم کی حیثیت سے ممتاز ہوئے۔
عابد علی عابد 17 ستمبر 1906ء کو ڈیرہ اسماعیل خان میں پیدا ہوئے۔ لاہور سے ایل ایل بی تعلیم حاصل کی اور وکالت کا آغاز کیا لیکن پھر ادبی ذوق انھیں پنجاب یونیورسٹی تک لے آیا جہاں سے فارسی میں ایم اے کیا اور دیال سنگھ کالج لاہور میں اسی زبان کے پروفیسر مقرر ہوگئے۔ حکیم احمد شجاع کے رسالے ’’ہزار داستاں‘‘ سے انھوں نے اپنے ادبی سفر کا آغاز کیا تھا۔ دیال سنگھ کالج سے ریٹائرمنٹ کے بعد مجلسِ ترقیٔ ادب سے وابستہ ہوئے اور اس کے سہ ماہی جریدے ’’صحیفہ‘‘ کی ادارت بھی کی۔
اُن کی کتب کی اشاعت کا سلسلہ باقاعدہ طور پر 1923ء سے شروع ہوا جب ان کی پہلی نثری کتاب ’’حجاب زندگی اور دوسرے افسانے‘‘ کے عنوان سے چھپی۔ پھر افسانوں ہی کی دوسری کتاب ’’قسمت اور دوسرے افسانے‘‘ شائع ہوئی، ناولٹ ’’شمع ‘‘ 1947ء میں چھپا۔ بعد ازاں دکھ سکھ اور سہاگ اور ڈراموں کا ایک مجموعہ ’’ یَدِ بیضا‘‘ کے نام سے چھپا۔ اس کے علاوہ ’’روپ متی، بازبہادر، بھی شہور ڈراما ہے‘‘ یہ سب نثری کتب افسانوں اور ڈراموں پر مشتمل تھیں جو پہلے چھپ گئیں، بنیادی شناخت شاعری تھی مگر شعری مجموعہ 1955ء میں شایع ہو سکا اور اس مجموعے کی اشاعت نے بطور شاعر عابد علی عابد کو زبردست پذیرائی اور پہچان دی۔
عابد علی عابد کی تصانیف اصولِ انتقاد، ادب کے اسلوب، شمع، یدِ بیضا، سہاگ، تلمیحاتِ اقبال، طلسمات، میں کبھی غزل نہ کہتا کے نام سے بڑا ادبی خزانہ ہیں۔ انھوں نے ادب کی مختلف اصناف میں اپنا زورِ قلم آزمایا اور خود کو ایک ہمہ جہت، ہمہ پہلو شخصیت کے طور پر منوایا۔
آپ کا ردعمل کیا ہے؟