سہراب مودی: تاریخی فلموں کا رستم
اداکار، ہدایت کار اور فلم ساز آں جہانی سہراب مودی کو تاریخی فلمیں بنانے میں ملکہ حاصل تھا۔ انھیں ہندوستان میں تاریخی فلموں کا رستم بھی کہا جاتا ہے۔ مودی صاحب اور ان کی فلموں نے کئی اعزازات اپنے نام کیے جن میں بطور فلم ساز دادا صاحب پھالکے ایوارڈ بھی شامل ہے۔ سہراب مُودی […]
اداکار، ہدایت کار اور فلم ساز آں جہانی سہراب مودی کو تاریخی فلمیں بنانے میں ملکہ حاصل تھا۔ انھیں ہندوستان میں تاریخی فلموں کا رستم بھی کہا جاتا ہے۔
مودی صاحب اور ان کی فلموں نے کئی اعزازات اپنے نام کیے جن میں بطور فلم ساز دادا صاحب پھالکے ایوارڈ بھی شامل ہے۔ سہراب مُودی اِس ایوارڈ کو حاصل کرنے والے اوّلین دس افراد میں سے ایک تھے۔ سہراب مودی 28 جنوری 1984 کو ممبئی میں انتقال کرگئے تھے۔ آج ان کی برسی ہے۔
1897 میں بھارتی ریاست گجرات میں پیدا ہونے والے سہراب مودی نے تھیٹر میں اپنے طویل عرصہ کے تجربے کو 1935ء میں فلم کی دنیا میں آزمایا اور شیکسپئر کے معروف ڈرامے ’ہیملٹ‘ پر مبنی فلم ’خون کا خون‘ ڈائریکٹ ہی نہیں کی بلکہ خود ہیملٹ کا کردار ادا کیا۔ 1938 میں اُن کی فلم ’جیلر‘ ریلیز ہوئی لیکن سہراب مودی کی وجہِ شہرت 1939 میں فلم ’پکار‘ بنی۔ اس کا موضوع عدلِ جہانگیری تھا اور یہ کام یاب فلم ثابت ہوئی۔
1941 میں سہراب مودی نے فلم سکندر میں پرتھوی راج کپور کے مقابل راجہ پورس کا یادگار کردار ادا کیا۔ 1955 میں وکٹر ہیوگو کے معروف ناول ’لامیزرابل‘ پر مبنی فلم ’کُندن‘ پیش کی۔ جب کہ بطور اداکار 1983 میں اُن کی آخری فلم رضیہ سلطانہ تھی۔
یہاں ہم سہراب مودی کی شہرت، فلموں اور مکالموں کی مقبولیت کا ایک واقعہ پیش کررہے ہیں جو فلم ”شیش محل“ سے جڑا ہوا ہے۔ یہ فلم 1950 میں ریلیز ہوئی تھی۔ سہراب مودی خود بھی سنیما ہال میں یہ فلم دیکھ رہے تھے۔ اچانک ان کی نظر ایک شخص پر پڑی جس نے اپنی آنکھیں بند کی ہوئی تھیں۔ سہراب مودی کو یہ بہت عجیب لگا۔ وہ چند لمحے اسے دیکھتے رہے، مگر اس شخص نے آنکھیں نہ کھولیں۔ سہراب مودی کو تشویش ہوئی کہ ایسا کیوں ہے۔ وہ یہ سوچ کر پریشان ہو گئے تھے کہ اس شخص نے فلم دیکھنے کے بجائے اپنی آنکھیں بند کر لی ہیں جس کا ایک مطلب یہ ہو سکتا ہے کہ اسے فلم پسند نہیں آئی۔ انھوں نے سنیما ہال کے ایک ملازم کو بلایا اور اسے کہا کہ اس شخص کو سنیما ہال سے باہر لے جاﺅ اور ٹکٹ کے پیسے واپس کر دو۔ ملازم اس شخص کے پاس گیا اور چند لمحوں بعد سہراب مودی کے پاس حیرت کی تصویر بنا لوٹ آیا۔ اس نے سہراب مودی کو بتایا کہ وہ آدمی اندھا ہے اور صرف اس لیے آیا تھا کہ سہراب مودی کے مکالمے سن سکے۔ یوں سہراب مودی پر اپنی اہمیت اور پسندیدگی کھلی اور ان کی اس فلم شیش محل سے متعلق پریشانی بھی دور ہوئی۔
متحدہ ہندوستان اور بعد میں پاک و ہند کی فلمی دنیا میں کئی تاریخی موضوعات پر فلمیں بنائی گئیں جن میں سے کچھ سپر ہٹ ثابت ہوئیں اور بعض نے ناکامی کا منہ دیکھا۔ سہراب مودی وہ فن کار اور ماہر فلم ساز تھے جو تاریخی فلمیں بنا کر کام یابی کے جھنڈے گاڑتے چلے گئے۔ وہ کرداروں کے لیے نام کے انتخاب کے ساتھ ہر تاریخی کردار کا مطالعہ اور اس کے بارے میں معلومات اکٹھی کرتے تھے اور خود بھی تاریخی شعور رکھتے تھے۔ مودی وہ پارسی ہدایت کار اور اداکار تھے جس نے تاریخی فلمیں بنانے میں امتیاز اور انفرادیت سے کام لیا اور ساتھ ہی سماجی اور قومی مسائل پر بھی بڑی شان دار فلمیں بنائیں۔ مودی صاحب اسکول کی تعلیم مکمل کرنے کے بعد گوالیار میں لوگوں کو چلتی پھرتی فلمیں دکھانے اور روزی کمانے لگے تھے۔ وہ پروجیکٹر پر فلمیں دکھاتے ہوئے ایک آریا تھیٹر کمپنی قائم کرنے میں کام یاب ہوگئے۔ پھر تھیٹر پر اداکاری بھی شروع کردی اور 1935ء میں اسٹیج فلم کمپنی قائم کرلی کیوں کہ اب تھیٹر زوال پذیر تھا۔ پھر وہ کام یابی کی طرف بڑھتے ہی چلے گئے۔ ان کی چند فلموں نے کئی عشروں تک مقبولیت برقرار رکھی۔ فلم سازی ہی نہیں مودی بطور اداکار بھی فلم بینوں کو متاثر کرتے رہے۔ انھوں نے فلموں کے مکالمے لکھے تو یہاں بھی قسمت نے ان کا خوب ساتھ دیا اور ان کے تحریر کردہ مکالمے بہت مقبول ہوئے۔
1953 میں سہراب مودی نے ’’جھانسی کی رانی‘‘ بنائی، جو ہندوستان کی پہلی ٹیکنی کلر فلم تھی۔ لیکن خلاف توقع یہ فلم باکس آفس پر ناکام ہوگئی اور اگلے سال ’’مرزا غالبؔ‘‘ جیسی فلم بنائی، جو اس سال کی بہترین فلم قرار پائی۔ اس فلم کو صدارتی ایوارڈ ملا۔ کئی ناقابلِ فراموش فلمیں بنانے والے سہراب مودی کو آج بھی یاد کیا جاتا ہے اور ان کے فن کی مثال دی جاتی ہے۔
آپ کا ردعمل کیا ہے؟