سرائے والے کا لڑکا (ایک دل چسپ کہانی)
بہت برسوں پہلے ایک سرائے دار ہوا کرتا تھا جس کی چھوٹی سی سرائے تھی۔ مسافر آتے اور اس کی سرائے میں رات گزارتے، چلے جاتے۔ یوں اس کو کچھ آمدنی ہو جاتی۔ اس سرائے دار کا ایک بیٹا تھا۔ اس کا نام تھا سائمن تھا۔ یہ لڑکا بڑا ہوا تو بالکل بیکار اور نکھٹّو […]
بہت برسوں پہلے ایک سرائے دار ہوا کرتا تھا جس کی چھوٹی سی سرائے تھی۔ مسافر آتے اور اس کی سرائے میں رات گزارتے، چلے جاتے۔ یوں اس کو کچھ آمدنی ہو جاتی۔
اس سرائے دار کا ایک بیٹا تھا۔ اس کا نام تھا سائمن تھا۔ یہ لڑکا بڑا ہوا تو بالکل بیکار اور نکھٹّو نکلا۔ بس ہر وقت کوئی نہ کوئی مصیبت کھٹری کیے رکھتا۔ اس کا باپ اس کے ہاتھوں بہت تنگ تھا۔ سائمن اپنے گاؤں سے باہر کبھی نہیں گیا تھا لیکن وہ پہاڑوں کی طرف دیکھتا تو کہتا کہ میں ایک دن اِن پہاڑوں سے پرے جاؤں گا اور دنیا بھر کی سیر کروں گا۔ ندی کو دیکھتا تو کہتا کہ میں ایسی کئی ندیاں پار کر جاؤں گا۔ پھر سمندر پار جا کر ایسے ایسے کام کروں گا کہ کسی امیر آدمی کی لڑکی یا شہزادی میری بیوی بن کر فخر کرے گی اور یوں میری زندگی بہت اچھی گزرے گی۔ لیکن یہ سب اس کے خیالی پلاؤ تھے۔ وہ نہ صرف کوئی کام نہ کرتا تھا، بلکہ اپنے باپ کی دی ہوئی رقم بھی ضائع کر دیتا تھا۔ سرائے میں جو مسافر بھی آتا، سائمن کا باپ اس سے کہتا کہ وہ سائمن کو سمجھائے کہ کچھ کام دھندا کیا کرے۔ لیکن سائمن کے کان پر جوں تک نہ رینگتی۔
آخر لوگوں نے سرائے دار کو مشورہ دیا کہ اس لڑکے کے لیے ایک ہی کام مناسب ہے۔ اسے فوج میں بھرتی کرا دو۔ فوج والے اسے خود ہی ٹھیک کر لیں گے۔ سائمن کے باپ کو یہ مشورہ پسند آیا اور اس نے بیٹے کو فوج میں بھرتی کرا دیا۔ لیکن فوج میں کافی عرصہ ملازمت کے بعد بھی اس نے کوئی ترقی نہ کی۔ سائمن کو یک دم خیال آیا کہ کیوں نہ فوجی بینڈ میں شامل ہو جاؤں۔ اس نے افسروں کی منت سماجت کی اور فوجی بینڈ میں ڈھول بجانے پر لگ گیا۔
سائمن کے دوستوں میں ایک چالاک فوجی بھی تھا۔ وہ اس کی ڈینگوں سے تنگ آ چکا تھا۔ ایک دن جب سائمن نے اس سے کہا کہ میرا باپ تو بہت امیر آدمی ہے۔ گھر پر مجھے اتنی عمدہ خوراک ملتی تھی، یہاں تو میں اکثر بھوکا رہ جاتا ہوں، تو اس کے دوست نے اس سے کہا کہ تم ہمیشہ یہی کہتے رہتے ہو کہ تمہارا باپ امیر ہے، یہ ہے، وہ ہے۔ اگر وہ اتنا ہی امیر ہے تو اسے لکھو کہ مجھے ترقی دے کر داروغہ بنا دیا گیا ہے۔ اس خوشی میں مَیں اپنے افسروں کو پارٹی دوں گا۔ مہربانی کر کے کی رقم بھیج دے۔ سائمن کو یہ تجویز بہت پسند آئی اور اس نے اسی وقت باپ کو خط لکھ دیا۔
سائمن کے والد کو یہ خط ملا تو اس کی خوشی کا ٹھکانا نہ رہا۔ اس نے اپنی بیوی کو خط پڑھ کر سنایا اور کہا: ”دیکھ لو، باپ بیٹے کی قسمت آخر جاگ ٹھی۔“ یہ کہہ کر وہ اٹھا اور روپوں کی ایک تھیلی سائمن کو بھجوا دی۔ اِدھر سائمن کی وہی حالت تھی۔ خوب کھانا پینا اور عیش کرنا۔ دو تین مہینوں میں باپ کی طرف سے آئے ہوئے روپے فضول خرچی میں اڑا دیے اور پھر ایک اور خط باپ کو لکھ دیا کہ مجھے ترقی مل گئی ہے۔ میرے ساتھی افسر امیر گھرانوں کے ہیں اور بڑے ٹھاٹھ سے رہتے ہیں۔ میری تنخواہ بہت تھوڑی ہے اور میں ان جیسے ٹھاٹھ باٹ نہیں بنا سکتا۔ مہربانی کر کے کچھ اور روپے بھیجیے۔
باپ کو سائمن کا دوسرا خط ملا تو وہ اور بھی خوش ہوا کہ چلو لڑ کا کسی قابل تو ہوا۔ اس نے پھر کُچھ رقم اس کو بھجوا دی۔ اب تو سائمن کی موج ہو گئی۔ وہ ہر دوسرے تیسرے مہینے باپ کو ترقّی کی خبر سنا کر اس سے کچھ نہ کچھ رقم اینٹھ لیتا۔ پھر چند ماہ بعد اس نے باپ کو لکھا کہ اب وہ ترقّی کرتے کرتے جرنیل بن گیا ہے۔ اس کا باپ یہ سن کر خوشی سے پھولا نہ سمایا۔ وہ ہر آنے والے کو بڑے فخر سے بیٹے کی ترقّی کا حال سناتا۔
ایک دِن اس نے سوچا کہ اس کا بیٹا اتنا بڑا افسر ہو گیا ہے ، کیوں نہ جا کر اس سے ملاقات کی جائے۔ اس میں اس کی اپنی بھی عزّت تھی اور سائمن بھی خوش ہو جاتا۔
سائمن کے باپ نے اس خیال سے کہ بیٹا بہت بڑا آدمی ہے، ایک خوب صورت بگھّی کرائے پر لی۔ اس میں چار گھوڑے جتے تھے۔ یوں دونوں میاں بیوی اپنے بیٹے سے ملنے کے لیے بڑی شان سے شہر کی طرف روانہ ہوئے۔
شہر میں ہر طرف بڑی رونق اور گہما گہمی تھی۔ فوج کی پریڈ ہو رہی تھی اور پیدل اور گھڑ سوار دستے بینڈ کی دھن پر پریڈ کرتے ہوئے گزر رہے تھے۔ سارا شہر پریڈ دیکھنے کے لیے آیا تھا۔ فوجی دستوں کے آگے کھلی گاڑیاں تھیں جن میں کرنیل اور جرنیل بڑے رعب داب سے بیٹھے تھے۔
بوڑھے سرائے دار نے غور سے ایک ایک افسر کو دیکھا۔ اس کی بیوی نے بھی بہت کوشش کی لیکن کسی بھی گاڑی میں انھیں اپنا لائق بیٹا نظر نہ آیا۔ وہ سمجھے کہ شاید ان کی نظر کو دھوکا ہوا ہے۔ چناں چہ انہوں نے چند لوگوں سے پوچھا کہ کیا ان افسروں میں سائمن نام کا کوئی جرنیل بھی ہے؟ لوگ بوڑھے کی بات سن کر بڑے حیران ہوئے، انہوں نے اسے بتایا کہ اس نام کا تو یہاں کوئی جرنیل نہیں۔ البتہ بینڈ والوں میں ایک ڈھول بجانے والا داروغہ ہے جس کا نام سائمن ہے۔
بوڑھے کو یہ سن کر سخت غصّہ آیا کہ اس کا بیٹا ابھی تک داروغہ ہے اور خطوں میں جھوٹ موٹ اپنے کو جرنیل بتاتا ہے۔ وہ سیدھا فوج کے ایک افسر کے پاس گیا اور اسے ساری بات بتا کر کہا کہ اس کا لڑکا اس کے حوالے کیا جائے تا کہ وہ اسے اپنے ہاتھوں سے سزا دے سکے۔
سائمن کی ماں جو بڑے غصّے میں تھی، لیکن اب اپنے شوہر کو یہ کہتے سنا کہ وہ سائمن کو سزا دے گا تو اس نے بڑی کوشش کی کہ وہ اس کو معاف کر دے، لیکن بوڑھے نے اس کی ایک نہ سنی۔ اس نے سائمن کو رسیوں میں جکڑا اور بگھّی کے پیچھے ڈال کر چل دیا۔
سائمن کے جس دوست نے اسے باپ سے روپے منگوانے کا مشورہ دیا تھا، وہ بھی یہ سارا تماشا دیکھ رہا تھا۔ اسے سائمن کی حالت پر بڑا رحم آیا اور وہ بگھّی کے پیچھے پیچھے چل دیا۔
اِس علاقے کی سڑکیں ٹوٹی پھوٹی اور کچّی تھیں، اس لیے بگھّی کی رفتار بہت سُست تھی۔ وہ تیز تیز بگھّی کے پیچھے پیچھے چلتا رہا اور جب ایک جگہ چڑھائی پر بگھّی بہت آہستہ ہو گئی تو اس نے سائمن کو بگھّی سے اتار کر اس کی رسّیاں کاٹ دیں اور اس سے کہا کہ اب تمہارے لیے یہی بہتر ہے کہ یہاں سے فوراً چلے جاؤ اور کہیں اور جا کر قسمت آزماؤ۔ تمہارے باپ کو تم پر اتنا غصّہ ہے کہ وہ تمہیں گولی مار دے گا۔ یہ کہہ کر اس کا دوست چلا گیا اور سائمن جنگل میں اکیلا رہ گیا۔
صبح کا وقت تھا سورج نکل رہا تھا۔ سائمن نے دور افق کی طرف دیکھا اور فیصلہ کیا کہ وہ مشرق کی طرف جائے گا۔ وہ چلتا گیا۔ کئی شہر، کئی گاؤں راستے میں آئے۔ تھک جاتا تو آرام کر لیتا۔ لوگ سے مسافر سمجھ کر کچھ دے دیتے۔ اس کے ہاتھ میں ایک بنسری تھی۔ وہ بنسری بڑی اچھی بجاتا تھا۔ جب دل گھبراتا تو بنسری بجانے لگتا۔
چلتے چلتے وہ ایک ایسی جگہ پہنچا جہاں دو قلعے نظر آئے۔ ایک قلعہ پہاڑی کے دامن میں تھا اور دوسرا پہاڑی کے اوپر۔ اوپر والا قلعہ بے آباد اور ویران سا تھا۔ سائمن نے لوگوں سے ان قلعوں کے متعلق دریافت کیا تو معلوم ہوا کہ پہاڑی کے دامن میں جو قلعہ ہے اس میں ایک شہزادہ اور اس کی پیاری سی بیٹی رہتی ہے۔ یہ شہزادی بہت ہی خوب صورت ہے، لیکن بہت اداس رہتی ہے۔ اس کی آنکھوں سے ہر وقت آنسو بہتے رہتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ پہاڑی کی چوٹی والے قلعے میں ایک رُوح کا بسیرا ہے۔ یہ روح اس لڑکی کے دادا کی ہے جو چند سال پہلے فوت ہوا تھا۔
شہزادی کا دادا زندگی بھر لوگوں پر ظلم کرتا رہا تھا۔ اس کے پاس بے شمار دولت تھی، لیکن اس نے ساری دولت فضول خرچیوں میں برباد کر دی۔ اس نے دنیا میں اتنے برے کام کیے تھے کہ مرنے کے بعد اس کی رُوح پر آسمان کے تمام راستے بند کر دیے گئے اور اسے اسی قلعے میں واپس آنا پڑا، جہاں وہ زندگی میں رہا کرتا تھا۔ جب شہزادی جوان ہوئی تو اس کی شادی کے لیے یہ شرط رکھی گئی کہ اس کے ساتھ وہی شخص شادی کر سکے گا جو اس قلعے میں سے اس روح کو نکالے گا۔
شہزادی اتنی خوب صورت تھی کہ اسے حاصل کرنے کے لیے بہت سے شہزادے اور امیر زادے اس قلعے میں گئے تا کہ وہاں سے بوڑھے کی روح کو نکال سکیں۔ لیکن ان میں سے کوئی بھی زندہ واپس نہ آیا۔ شہزادی کے داس اور غمگین رہنے کی یہی وجہ تھی۔
جب یہ بات سائمن نے سنی تو اس نے سوچا کہ میری زندگی تو ویسے بھی بیکار ہی ہے، کیوں نہ قلعے میں جا کر قسمت آزمائی کی جائے۔ مر گیا تو اس دکھ بھری زندگی سے نجات مل جائے گی۔ کامیاب ہوا تو عیش و آرام میں زندگی گزر جائے گی۔ شہزادی بھی ملے گی اور اس کی دولت بھی ہاتھ آئے گی۔
اگلے دِن صبح کو وہ پہاڑ کے دامن والے قلعے کے دروازے کے پاس بیٹھ کر بانسری بجانے لگا۔ بانسری کی دھن اتنی پیاری تھی کہ شہزادی اور اس کا باپ کھڑکی میں آ کر کھڑے ہو گئے۔ شہزادی نے باپ سے ضد کی کہ اس نوجوان کو قلعے ہی میں رکھ لیا جائے تاکہ جب وه اداس ہو تو اس آدمی سے دھنیں سن کر اپنا دل بہلا لیا کرے۔
باپ اپنی بیٹی کی ہر بات مانتا تھا۔ اس نے اجازت دے دی۔ شہزادی سائمن کے پاس گئی اور اسے یہ خوش خبری سنائی کہ آیندہ وہ قلعے میں رہا کرے گا۔ شہزادی اور اس کے والد نے سائمن کی آؤ بھگت کی اور نوکروں کو ہدایت کی کہ وہ اِس بات کا خیال رکھیں کہ شاہی مہمان کو اچھے سے اچھا کھانے کو ملے اور وہ ہر وقت خوش رہے۔ باتوں باتوں میں انہوں نے پہاڑی قلعے کے متعلق سائمن کو بتایا تو اس نے فوراً سینہ ٹھونک کر کہا کہ میں اس بوڑھے کی روح سے قلعے کو نجات دلاؤں گا۔ شہزادی کو سائمن کی اس بات پر خوشی بھی ہوئی اور دکھ بھی ہوا۔ خوشی اس بات کی کہ اگر وہ اپنے مقصد میں کام یاب ہو گیا تو دونوں ہنسی خوشی زندگی گزاریں گے۔ دکھ اس بات کا کہ شہزادی نہیں چاہتی تھی کہ سائمن روح کے ہاتھوں مارا جائے۔
شہزادی کے والد نے جب دیکھا کہ سائمن کا ارادہ پکا ہے تو اس نے حکم دیا کہ چار گھوڑوں والی بگھی منگوائی جائے اور سائمن کو رات ہونے سے پہلے پہلے پہاڑی قلعے میں پہنچا دیا جائے۔ قلعے کے سامنے پہنچتے ہی سائمن کود کر بگھی سے باہر نکلا۔ پھر قلعے کے دروازے میں سے ہوتا ہوا ایک بہت بڑے کمرے میں پہنچ گیا۔ اندھیرا ہونے والا تھا۔ اس نے میز پر پڑی ہوئی موم بتّی روشن کی اور کمرے کو غور سے دیکھنے لگا۔
کمرے کی چھت پر بیل بُوٹے بنے ہوئے تھے اور ستونوں پر بھی عمده نقش و نگار کھدے تھے۔ مدّت سے بند رہنے کی وجہ سے کمرے میں لگی ہوئی تصویوں اور ریشمی پردوں پر مٹّی کی تہیں جمی ہوئی تھیں۔
اس نے ایک کھڑکی کھولی تو باہر سے ایک باغ نظر آیا۔ لیکن وہ اجڑ چکا تھا۔ گھاس خشک ہو گئی تھی اور بیلیں سُوکھ گئی تھیں۔ ہر طرف بھیانک خاموشی طاری تھی۔
سائمن نے ایک الماری کھولی تو اس میں سے ایک گھڑی ملی۔ اس نے گھڑی میں چابی دی اور اندازے سے وقت ٹھیک کیا تا کہ وقت کا پتا چل سکے۔
پھر اس نے الماری سے ایک پرانا ناول نکالا اور کرسی پر بیٹھ کر پڑھنے لگا۔ اس کے دِل میں کسی قسم کا ڈر یا خوف نہ تھا۔ پڑھتے پڑھتے گیارہ بج گئے۔ پھر وہ اکتا گیا تو سوچنے لگا کہ آدھی رات ہونے کو آئی، خدا جانے روح کب آئے گی۔ اس خیال کا آنا تھا کہ اچانک کسی گاڑی کی آواز آئی۔ یہ آواز بہت دور سے آ رہی تھی۔ پھر آہستہ آہستہ نزدیک ہوتی گئی۔ سائمن کے دل کی دھڑکن تیز ہو گئی۔ لیکن وہ اسی طرح پڑھنے میں مصروف رہا۔
کچھ دیر بعد دروازہ آہستہ سے کھلا اور ایک بوڑھا آدمی چابیوں کا گچھا ہاتھ میں لیے اندر داخل ہوا۔ اس کے جسم پر کوئی کپڑا نہ تھا اور اس کا رنگ ايسا سیاہ تھا جسے توا۔ آنکھیں ایسے نظر آ رہی تھیں جیسے ان میں کوئلے دہک رہے ہوں۔ سائمن بالکل نہ ڈرا، نہ اس نے کوئی حرکت کی۔ اسی طرح کتاب پڑھتا رہا۔ بوڑھا گھورتا ہوا اس کے پاس آیا اور رعب دار آواز میں بولا: ”اے! تم یہاں کس کی اجازت سے آئے ہو؟“
سائمن بولا ”مسافر ہوں۔ راستے میں شام ہو گئی۔ قلعہ دیکھا تو اندر چلا آیا۔“
بوڑھا گرج کر بولا ”تمہیں ڈر نہیں لگا؟ کسی نے نہیں بتایا تمہیں کہ یہاں کئی بہادر نوجوان اپنی جان کھو چکے ہیں؟ میں کسی کو زندہ نہیں چھوڑتا۔ سمجھے؟“
سائمن اطمینان سے بولا ”میں ایک غریب مزدور کا بیٹا ہوں۔ موت کی کم ہی پروا کرتا ہوں۔“
بوڑھا بولا ”بڑے شیخی خورے معلوم ہوتے ہو۔ دیکھوں گا کب تک شیخی بگھارو گے۔ یہ لو چابیاں اور ایک ایک کر کے قلعے کے دروازے کھولتے جاؤ۔“
سائمن وہیں بیٹھا بیٹھا بولا ”میں کوئی تمہارا ملازم ہوں؟ تم خود ہی کھولو نا۔ البتّہ میں تمہارے پیچھے پیچھے آ سکتا ہوں۔“
بوڑھے کی روح نے کوئی جواب نہ دیا اور وہ چابیاں لے کر چل پڑا۔ سائمن اس کے پیچھے چل دیا۔ بوڑھا ایک دروازہ کھول کر اندر داخل ہوا تو سائمن نے دیکھا کہ بوڑھے کے سر کے بال ایک دم سفید ہو گئے ہیں۔ بوڑھے نے دوسرا دروازہ کھولا اور پھر تیسرے دروازے پر رک کر ایک بار پھر سائمن سے کہا کہ چابیاں لے کر دروازه کھولو۔ سائمن نے انکار کیا تو اس نے خود ہی تیسرا دروازہ بھی کھول دیا۔ سائمن یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ سر کے بالوں کے علاوہ پورے کا آدھا جسم بھی سفید ہو گیا ہے۔ وہ یہ سب کچھ دیکھتا رہا، لیکن خاموش رہا۔ جوں جوں بوڑھا دروازے کھولتا گیا، اس کا جسم سفید ہوتا گیا۔ ساتواں دروازہ کھولنے پر وہ گھٹنوں تک سفید ہوا اور جب باره کے بارہ دروازے کھل گئے تو وہ پورے کا پورا سفید ہوگیا۔
بارھویں کمرے میں انسانی ہڈیوں کا ڈھیر لگا ہوا تھا۔ یہ ان بہادر لوگوں کی ہڈّیاں تھیں جنہیں اس روح نے مار ڈالا تھا۔ بوڑھے نے آہستہ سے کہا ”دیکھو، یہاں کتنے نوجوان اپنی جان کھو چکے ہیں۔ انہیں پتا ہی نہ تھا کہ یہاں کیا کرنا ہے اور کیا کہنا ہے۔ میں بہت عرصے سے ایک مزدور ہی کے بیٹے کا انتظار کر رہا تھا۔ تم نے اپنے آپ کو بھی بچا ليا، مجھے بھی اس قید سے آزاد کر دیا اور قلعے کو بھی تباہی سے بچا لیا۔ اب یوں کرو کہ یہ کلہاڑی اٹھا کر میرا سَر کاٹ دو۔“ سائمن بہت بہادر تھا، لیکن یہ بات سن کر گھبرا گیا اور ایسا کرنے سے انکار کر دیا۔
بوڑھا پھر بولا، ”دیکھو اگر تم نے میرا سر نہ کاٹا تو تمہاری ساری محنت بیکار جائے گی۔ میری روح یہیں اسی قلعے میں رہے گی اور تمہیں اپنے سَر کی قربانی دینی پڑے گی۔“ اب سائمن مجبور ہو گیا۔ اس نے کلہاڑی اٹھائی اور گھما کر بوڑھے کی گردن پر دے ماری۔ گردن ایک جھٹکے کے ساتھ جسم سے الگ ہو کر سائمن کے پیروں میں گِری۔ اگلے ہی لمحے وہاں گردن کے بجائے مٹی کا ڈھیر پڑا تھا۔ اس ڈھیر میں سے ایک سفید کبوتر نکل کر کھڑکی سے باہر نکلتا چلا گیا۔ یہی شہزادی کے دادا کی روح تھی۔
سائمن بہت تھک چکا تھا۔ اس کام سے فارغ ہو کر وہ لیٹ گیا اور گہری نیند سو گیا۔
صبح اس کی آنکھ اس وقت کھلی جب شہزادی اور اس کے والد کی بگھّی کی آواز آئی۔ وہ بھاگ کر باہر نکلا تو شہزادی اور اس کا والد بڑے غور سے اسے دیکھنے لگے۔ آج تک اس قلعے سے کوئی زنده واپس نہ نکلا تھا۔ انہیں اپنی آنکھوں پر یقین نہ آ رہا تھا۔
جب سائمن نے انہیں بتایا کہ بوڑھے کی روح قلعے سے جا چکی ہے تو وہ کود کر بگھّی سے اترے۔ سائمن انہیں لے کر قلعے میں داخل ہوا اور تمام کمرے دکھائے۔ اَب انہیں یقین آیا۔
شہزادی سائمن کی کام یابی پر بہت خوش تھی۔ اور کیوں نہ ہوتی۔ جہاں بے شمار شہزادے اور بہادر نوجوان ناکام ہو چکے تھے، وہاں سائمن نے یہ مہم سر کر لی تھی۔
سب سے پہلے شہزادی کے والد نے حکم دیا کہ ان تمام نوجوانوں کی ہڈیوں کو، جو روح کے ہاتھوں مارے گئے تھے، عزّت کے ساتھ دفن کیا جائے۔ پھر اس نے قلعے کی صفائی کرا کے رنگ و روغن کروایا۔ اس کے بعد سائمن اور شہزادی کی شادی کا جشن منانے کا حکم دیا لیکن سائمن نے کہا: ”بہت عرصہ ہو گیا میں اپنے والدین سے نہیں ملا۔ میں نے ان کو بہت تکلیفیں دی ہیں۔ میں اِس خوشی میں ان کو ضرور شامل کرنا چاہتا ہوں۔“
شہزادی کا والد راضی ہو گیا۔ اس نے بجائے شادی کے سائمن اور شہزادی کی منگنی دھوم دھام سے کر دی۔ پھر سائمن کے سفر کی تیاری کی گئی۔ سائمن کے جانے پر شہزادی بہت اداس ہوئی۔ اس نے سائمن سے وعدہ لیا کہ وہ اپنے والدین سے مل کر جلد واپس آئے گا۔ شہزادی نے سائمن سے اس کے گھر کا پتا بھی لیا تا کہ اگر وہ واپس نہ آئے تو وہ خود اس کے گھر پہنچ سکے۔ سائمن بہت سے نوکروں اور درباریوں کو ساتھ لے کر روانہ ہو گیا۔ وہ خوش تھا کہ اب بڑا آدمی بن کر اپنے ماں باپ کے پاس جا رہا ہے۔ موسم خوش گوار تھا۔ قا فلہ نو دن تو خیر و خوبی چلتا رہا لیکن دسویں روز سے ایک گھنے جنگل میں سے گزرنا پڑا۔ جب وہ جنگل میں داخل ہوئے تو چاند نِکلا ہوا تھا۔ لیکن دیکھتے ہی دیکھتے بادل چھا گئے۔ اندھیرا ہو گیا اور بارش شروع ہو گئی۔ جنگل میں دور دور تک کوئی ایسی محفوظ جگہ نہ تھی جہاں یہ لوگ پناہ لیتے۔ ایک تو اندھیرا، دوسرے سخت بارش۔ راستہ تلاش کرنا مشکل ہو رہا تھا۔ وہ بھوکے پیاسے، تھکے ہارے آہستہ آہستہ چلتے گئے۔ لیکن جنگل ختم ہونے کا نام نہ لے رہا تھا۔ اچانک درباریوں میں سے کسی کو دور ایک ٹمٹاتی ہوئی روشنی نظر آئی جو درختوں میں سے چھن چھن کر آ رہی تھی۔ وہ اسی طرف چل دیے۔
یہ روشنی ایک سرائے میں سے آ رہی تھی۔ یہ لوگ اندر داخل ہوئے تو ایک بوڑھی عورت کو چولھے پر کھانا پکاتے ہوئے پایا۔ اتنے میں سرائے والا بھی آ گیا اور ان کو خوش آمدید کہا۔ وہ لوگ اندر تو چلے گئے تھے لیکن انہیں سرائے دار کی آنکھوں سے شرارت ٹپکتی نظر آ رہی تھی۔ وہ سب اس قدر تھکے ہوئے تھے کہ لیٹتے ہی گہری نیند سوگئے۔ سرائے دار اسی موقعے کے انتظار میں تھا۔ دراصل یہ سرائے مسافروں کو لوٹنے کے لیے بنائی گئی تھی۔ یہاں مسافروں کو لوٹ کر انہیں موت کی نیند سلا دیا جاتا تھا۔
جب یہ لوگ سو گئے تو سرائے والا آہستہ سے نکل کر جنگل میں اپنے ساتھیوں کے پاس گیا۔ یہ لوگ تعداد میں بارہ اور نہایت ظالم قسم کے ڈاکو تھے۔ سرائے والا ان کے پاس پہنچا تو انہوں نے پوچھا: ”کیا خبر لائے ہو؟“
سرائے والا بولا ” بہت بڑی خوش خبری ہے۔ ایک بہت بڑا نواب اپنے ساتھیوں کے ساتھ سرائے میں آ کر ٹھہرا ہے۔ ان کے پاس گھوڑے، ہیرے، جواہرات ریشمی کپڑا اور بہت سا قیمتی سامان ہے۔“
ڈاکوؤں نے کہا ”ان کی تعداد کتنی ہے ؟“
”تعداد تو بہت ہے، لیکن وہ لوگ اس قدر تھکے ہوئے ہیں کہ انہیں سر پیر کا ہوش نہیں۔ یہی موقع ہے ان کے گلے کاٹنے کا۔“
ڈاکو دبے پاؤں سرائے میں داخل ہوئے اور سائمن کے ساتھیوں کا قتلِ عام شروع کر دیا۔ جب سائمن کو اپنے ساتھیوں کی چیخیں سنائی دیں تو وہ ہڑبڑا کر اٹھا اور ساتھیوں سے پستول مانگا۔ لیکن ڈاکو زیادہ تیز تھے۔ ان کے سردار نے سائمن پر پستول کی گولی داغ دی اور وہ خون میں لت پت ہو کر گر پڑا۔ ڈاکوؤں نے سائمن کو مردہ سمجھ کر پہلے اس کے گلے کا ہار اور انگوٹھی اتاری پھر سارا سامان اٹھایا اور گھوڑوں پر سوار ہو کر چل دیے۔
سائمن زخمی ہوگیا تھا لیکن مرا نہیں تھا۔ اس کے ساتھیوں میں کوئی بھی زندہ نہ بچا تھا۔ ڈاکو چلے گئے تو اس نے اپنے آپ کو سنبھالا اور چپکے سے سرائے میں سے نکل کر جنگل کا راستہ لیا۔ وہ چلتا گیا، چلتا گیا۔ یہاں تک کہ سورج ڈوبنے سے پہلے جنگل میں سے نکل گیا۔ اب وہ اپنے باپ کی سرائے سے صرف ایک میل کے فاصلے پر تھا۔ اس کے پاؤں ننگے اور کپڑے پھٹے ہوئے تھے۔ سفر کی تھکاوٹ اور ڈاکوؤں کے حملے سے اس کا حلیہ بگڑ گیا تھا۔ وہ ایسی حالت میں اپنے باپ کے سامنے جانا نہ چاہتا تھا۔ وہیں بیٹھ کر رات کا انتظار کرنے لگا۔ یہاں چند گڈریوں نے سے پہچان لیا اور اس کا مذاق اڑاتے ہوئے بولے: ”ارے سائمن! تم تو فوج میں جرنیل ہو گئے تھے۔ جرنیل صاحب ننگے پاؤں کہاں سے بھاگ کر آ رہے ہو؟“
سائمن بولا ”میرا مذاق مت اڑاؤ۔ میں اب وہ بھوکا ننگا سائمن نہیں ہوں۔ اب میں بہت امیر اور ایک بادشاہ کا داماد ہوں۔ البتہ مجھ پر ایک مصیبت آن پڑی ہے۔ میرے تمام ساتھیوں کو ڈاکوؤں نے قتل کر دیا اور سارا سامان چھین کر لے گئے۔ دیکھ لو، میرے کپڑے کتنے قیمتی ہیں لیکن پھٹے ہوئے ہیں۔“
گڈریوں نے سائمن کو اپنے کپڑے دیے اور اپنے ساتھ گاؤں لے گئے۔ سائمن کا باپ گھر پر نہیں تھا۔ اس کی ماں اسے دیکھ کر بھاگی ہوئی آئی اور اسے چمٹا کر رونے لگی۔ بُرے حال میں سہی، لیکن اس کا بیٹا زندہ تو تھا۔ وہ بہت خوش ہوئی لیکن شوہر کے غصّے کے ڈر سے اس نے سائمن کو ایک کمرے میں بند کر دیا۔ سائمن کا باپ واپس آیا تو اس نے محسوس کیا کہ ضرور کوئی خاص بات ہوئی ہے۔ بیوی کی آنکھوں میں آنسو دیکھ کر اس نے پوچها ”کیا بات ہے، روتی کیوں ہو؟“
”یہ تو خوشی کے آنسو ہیں“ بڑھیا بولی ”ہمارا سائمن زندہ ہے۔“
”کس بے وقوف کا نام لے رہی ہو۔“ بوڑھا بولا ”اگر مجھے پتا چل جائے کہ وہ کہاں ہے تو میں اسے گولی مار دوں گا۔“
لیکن جب اس نے دیکھا کہ بڑھیا کے آنسو ٹپ ٹپ گرنے لگے ہیں تو وہ نرم پڑ گیا اور بیوی سے پوچھا: ”کہاں چھپایا ہے تم نے سائمن کو؟“ بڑھیا نے اسے قسم دی کہ وہ سائمن کو کچھ نہیں کہے گا اور پھر سائمن کو آواز دی۔ وہ سامنے آگیا۔
بوڑھے نے سائمن کو پرانے کپڑے پہننے کو دیے اور اپنی اور گاؤں والوں کی بکریاں چرانے پر لگا دیا۔ سائمن بنسری ساتھ لے جاتا۔ بکریاں چرتی رہیں اور وہ بنسری بجاتا رہتا۔ اسے یقین تھا کہ شہزادی ضرور اسے تلاش کرتی ہوئی آئے گی۔
جب سائمن کو گھر گئے تین ہفتے ہو گئے اور وہ واپس نہ آیا تو شہزادی کو بہت فکر ہوئی اور وہ باپ سے اجازت لے کر اسے ڈھونڈنے نکل کھڑی ہوئی۔ باپ نے اس کے ساتھ بہت سے سپاہی کر دیے تھے۔
شہزادی بھی اسی راستے سے ہوتی ہوئی اسی سرائے میں پہنچ گئی جہاں سائمن ٹھہرا تھا۔ اتفاق سے سرائے والا اس وقت موجود نہ تھا۔ وہی بڑھیا جو سائمن کو کھانا پکاتی ہوئی نظر آئی تھی، شہزادی کے پاس آ کر بولی: ”بیٹی تم یہاں نہ ٹھہرو۔ یہ ڈاکوؤں کا ڈیرا ہے۔ وہ ظالم مسافروں کو لوٹ کر ان کا گلا کاٹ دیتے تھے۔ ابھی تین ہفتوں کی بات ہے، ایک امیر آدمی یہاں اپنے بہت سے ساتھیوں کے ساتھ ٹھہرا تھا۔ ڈاکوؤں نے ان کا سامان چھین کر ان سب کو مار ڈالا۔“
شہزادی کو یہ سن کر بہت صدمہ ہوا۔ لیکن جب بڑھیا نے اسے بتایا کہ اور سب لوگ تو مارے گئے تھے لیکن ان کا سردار زخمی ہونے کے باوجود بچ نکلا تھا تو اس کی جان میں جان آئی۔
شہزادی بہت بہادر تھی۔ وہ ان ڈاکوؤں سے بالکل نہ گھبرائی بلکہ سائمن کی تکلیف کا سن کر تو اس کا اور بھی دل چاہا کہ ان کو خوب مزہ چکھائے۔ اس نے اپنے ساتھیوں کو حکم دیا کہ وہ اپنے ہتھیار تیار رکھیں اور آنکھیں بند کرلیں لیکن سوئیں نہیں۔
سرائے والا واپس آیا تو شہزادی کا سامان دیکھ کر اس کے منہ میں پانی بھر آیا۔ وہ بھاگا بھاگا ڈاکوؤں کے پاس گیا اور انہیں بلا لایا۔ شہزادی اور اس کے ساتھیوں کو گہری نیند سوتا دیکھ کر وہ بہت خوش ہوئے۔ لیکن اس بار سب الٹا ہو گیا۔ شہزادی کے ساتھیوں نے ڈاکوؤں کو ایک ایک کر کے مارنا شروع کر دیا۔ جب بارہ کے بارہ ڈاکو اور سرائے کا دھوکے باز مالک مارے گئے تو شہزادی نے بڑھیا کو ساتھ لیا اور سائمن کی تلاش میں چل نکلی۔
آخر کار وہ اِس علاقے میں جا پہنچی جہاں سائمن بکریاں چرا رہا تھا۔ شہزادی کو بانسری کی آواز آئی تو اس نے فوراً پہچان لیا کہ یہ سائمن ہے۔ اس نے ساتھیوں کو وہیں رکنے کا اشارہ کیا اور خود گھوڑے سے اتر کر چھپتی چھپاتی سائمن کے قریب پہنچ گئی۔ یہ سچ مچ سائمن ہی تھا۔ شہزادی کا دل تیزی سے دھڑکنے لگا لیکن اس نے اپنے آپ پر قابو پایا اور فوراً ہی واپس آ گئی۔ اس کے بعد وہ اپنے ساتھیوں کو لے کر سائمن کے باپ کی سرائے کی طرف چل دی۔
بوڑھا سرائے دار شہزادی اور اس کے ساتھیوں کو دیکھ کر بہت حیران ہوا اور جب شہزادی نے اس کی سرائے میں ٹھہرنے کا ارادہ ظاہر کیا تو وہ گھبرا گیا اور بولا کہ وہ غریب آدمی ہے۔ اس کی سرائے شہزادی کے لائق نہیں ہے۔ لیکن شہزادی نے نہ صرف وہاں ٹھہرنے پر ضد کی، بلکہ یہ بھی حکم دیا کہ کسی اور ملازم کے بجائے وہ اپنے لڑکے کو اس کی خدمت پر لگائے۔ بوڑھے نے شہزادی سے کہا کہ اس کا لڑکا بہت نالائق، بے وقوف اور بدتمیز ہے۔ آپ کی خدمت کرنے کے قابل نہیں لیکن شہزادی نے اس کی ایک نہ سنی۔ ناچار بوڑھے نے سائمن کو شہزادی کے دروازے کے باہر بٹھا دیا۔ تھوڑی دیر بعد شہزادی نے پانی مانگا۔ سائمن نے پانی کا گلاس لیا اور نظریں نیچی کر کے اندر چلا گیا۔ شہزادی نے پانی پیا اور جب دیکھا کہ سائمن نظریں اوپر نہیں اٹھاتا تو گلاس زمین پر پھینک دیا۔ سائمن فرش پر سے گلاس کے ٹکڑے اکٹھے کرنے لگا۔ شہزادی بھاگ کر اس کے پاس آ بیٹھی۔ سائمن نے شہزادی کو دیکھا تو اس کی خوشی کا ٹھکانا نہ رہا۔
شہزادی سائمن کے لیے بہت عمدہ کپڑے لے کر گئی تھی۔ اس نے کپڑے تبدیل کیے اور پھر دونوں زرق برق لباس میں سائمن کے والدین سے ملنے گئے۔ بوڑھا سائمن کو پھٹی پھٹی نظروں سے دیکھ رہا تھا کہ شہزادی بولی ”ابّا جان، آپ اپنے بیٹے کو نہیں پہچانتے۔“
بوڑھا ہکا بکا ہو کر بولا: ”یہ شہزادہ ہے تو میرے لڑکے جیسا ہی، لیکن میرا لڑکا تو شہزادہ نہیں ہے۔“
بوڑھا کبھی شہزادی کو دیکھتا کبھی سائمن کو۔ اس کی سمجھ میں کچھ نہ آ رہا تھا۔ آخر کار سائمن جھکا اور اپنے باپ کے پیروں کو چھوتے ہوئے بولا ” ابا جان! میں آپ سے اپنی غلطیوں کی معافی چاہتا ہوں۔“ اور پھر جب اس نے اور شہزادی نے قلعے والی بات، منگنی کی بات اور ڈاکوؤں والا واقعہ سنایا تو بوڑھا اور بڑھیا بہت ہی خوش ہوئے۔ یہ سب باتیں ہو چکیں تو شہزادی سائمن اور اس کے ماں باپ کو لے کر واپس چلی گئی۔ سائمن اور شہزادی کی شادی دھوم دھام سے ہوئی اور وہ دونوں پہاڑی والے قلعے میں ہنسی خوشی زندگی بسر کرنے لگے۔
شادی کے بعد سائمن کے بوڑھے والدین اپنی سرائے میں واپس آ گئے ، کیوں کہ وہ سرائے کو نہیں چھوڑنا چاہتے تھے۔ لیکن اب انہیں کوئی دکھ، تکلیف یا پریشانی نہ تھی۔
(پولینڈ کی کہانیوں سے انتخاب، مترجم سیف الدّین حُسام)
آپ کا ردعمل کیا ہے؟