سبھاش چندر بوس کی پراسرار موت کا معمہ، حقیقت کیا ہے؟

برصغیر کو قابض انگریزوں کے تسلط سے آزاد کروانے کیلئے متعدد تحریکوں نے جنم لیا، جس میں کئی عظیم ہستیوں کے نام شامل ہیں ان میں ایک نام سبھاش چندر بوس کا بھی ہے۔ سبھاش چندر بوس جو کہ بھارت کے ایک اہم قوم پرست رہنما تھے سال 1945 میں پراسرار طور پر لاپتہ ہوگئے، […]

 0  1
سبھاش چندر بوس کی پراسرار موت کا معمہ، حقیقت کیا ہے؟

برصغیر کو قابض انگریزوں کے تسلط سے آزاد کروانے کیلئے متعدد تحریکوں نے جنم لیا، جس میں کئی عظیم ہستیوں کے نام شامل ہیں ان میں ایک نام سبھاش چندر بوس کا بھی ہے۔

سبھاش چندر بوس جو کہ بھارت کے ایک اہم قوم پرست رہنما تھے سال 1945 میں پراسرار طور پر لاپتہ ہوگئے، جس کے بعد مختلف نظریات اور قیاس آرائیاں جنم لیتی رہیں۔

ابتدائی تحقیقات میں سرکاری طور پر یہ نتیجہ اخذ کیا گیا کہ سبھاش چندر بوس تائیوان میں ایک طیارہ حادثے میں ہلاک ہوگئے تھے لیکن آج بھی بہت سے لوگوں کا یہ ماننا ہے کہ وہ اس حادثے میں بچ گئے تھے اور باقی زندگی انہوں نے گمنامی میں دنیا سے چھپ کر گزاری۔

منشی عبدالقدیر نے اپنی کتاب ’تاریخ آزاد ہند فوج‘ میں لکھا ہے کہ آزادی ہند فوج کے روح و رواں سبھاش چندر بوس تھے جو سبھاش بابو اور نیتا جی کے نام سے بھی معروف ہیں۔

پیدائش اور ابتدائی تعلیم 

سبھاش بابو 23 جنوری 1897 کو اڑیسہ کے ایک مقام کٹک میں پیدا ہوئے تھے جہاں ان کے والد رائے بہادر جانکی ناتھ بوس وکالت کے شعبے سے وابستہ تھے۔

ایک مُتمول گھرانے کے فرزند ہونے کی وجہ سے سبھاش بابو کی تعلیم بڑے اعلیٰ پیمانے پر ہوئی تاہم کالج کے دنوں ہی سے سبھاش بابو میں انگریزوں کے خلاف بغاوت کے آثار موجود تھے۔

ایک باغیانہ سرگرمی میں حصہ لینے کی وجہ سے سبھاش بابو کو دو سال تک پریزیڈنسی کالج کلکتہ سے نکالا گیا۔ بعد ازاں اُنھوں نے اسکاٹش چرچ کالج سے گریجویشن کی اور لندن سے انڈین سول سروس (آئی سی ایس) کا امتحان پاس کرکے 1920 میں وطن واپس آئے اور انگریزوں کیخلاف مؤثر کارروائیوں کا آغاز کیا۔

انہوں نے آزاد ہند فوج جسے انڈین نیشنل آرمی بھی کہا جاتا تھا کی بنیاد رکھی جس کی قیادت خود سبھاش چندر بوس کے ہاتھ میں تھی۔ یہ فوج ہندوستانی شہریوں پر مشتمل تھی جس میں ہندو، مسلمان، سکھ سبھی شامل تھے۔

سرکاری بیانیہ : طیارہ حادثہ

سب سے زیادہ مانا جانے والا نظریہ یہ ہے کہ سبھاش چندر بوس 18 اگست 1945 کو تائیوان میں ایک طیارہ حادثے میں ہلاک ہوگئے۔ 1970 میں بھارتی حکومت کی طرف سے مقرر کردہ ایک کمیشن بھی اسی نتیجے پر پہنچا تھا۔ تاہم اس کے باوجود شکوک و شبہات اور سوالات برقرار رہے، جس کی وجہ سے مختلف نظریات کو تقویت ملی۔

زندہ بچ جانے کے بعد خفیہ زندگی

اس حوالے سے اکثر لوگوں کا خیال ہے کہ بوس کی جان طیارہ حادثے میں بچ گئی تھی اور وہ بھارت میں ہی کہیں چھپ کر زندگی گزارتے رہے۔ جبکہ کچھ لوگ یہ کہتے ہیں کہ انہوں نے ایک نئی شناخت اختیار کی اور خفیہ طور پر بھارت کی آزادی کے لیے جدوجہد جاری رکھی۔

روس میں جلا وطنی:

ایک خیال یہ بھی ہے کہ سبھاش چندر بوس کو ان کے ساتھیوں نے دھوکہ دے کر سوویت یونین کے حوالے کر دیا تھا، جبکہ کچھ لوگوں کا دعویٰ ہے کہ انہیں روس میں قید کیا گیا اور وہیں ان کی موت واقع ہوئی اور روسی حکومت نے ان کی موجودگی کو خفیہ رکھا۔

سادھو کی زندگی:

ایک غالب گمان یہ بھی ہے کہ بوس نے گمنامی کی زندگی اختیار کرتے ہوئے سادھو بابا کا روپ دھارا جو مبینہ طور پر بھارت کی ریاست اتر پردیش میں رہتے تھے۔ یہ نظریہ بھارتی میجر جنرل جی ڈی بخشی کی کتاب کی اشاعت کے بعد مزید مشہور ہوگیا، جنہوں نے دعویٰ کیا کہ انہوں نے بوس سے ان کی نئی شکل میں ملاقات کی تھی۔

سیاسی اختلافات:

کچھ نظریات میں سیاسی چالاکیوں اور دھوکے بازی کا ذکر کیا گیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ سبھاش چندر بوس کو ان کے اپنے ساتھیوں نے دھوکہ دیا، خصوصاً جواہر لال نہرو اور مہاتما گاندھی، جو پارٹی قیادت کے لیے انہیں اپنا حریف سمجھتے تھے۔

مکھرجی کمیشن

اس معاملے کو پایہ تکمیل تک پہچانے کیلئے سال 1999میں بھارتی حکومت نے مکھرجی کمیشن قائم کیا تاکہ بوس کی گمشدگی کے حالات کی مکمل تحقیقات کی جاسکے۔

کمیشن نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ بوس طیارہ حادثے میں ہلاک نہیں ہوئے اور جاپان کے ایک مندر میں دفن راکھ ان کی نہیں تھی۔ تاہم بھارتی حکومت نے کمیشن کے نتائج کو باضابطہ طور پر قبول نہیں کیا۔

سچائی تاحال معمہ ہی ہے

بہت سی تحقیقات اور نظریات کے باوجود سبھاش چندر بوس کی موت کے بارے میں حقیقت ابھی تک ایک معمہ بنی ہوئی ہے۔ حتمی شواہد کی عدم موجودگی اور ان کی وراثت کے گرد سیاسی حساسیت نے اس پراسرار شخصیت کے ساتھ لوگوں کی دلچسپی کو مزید بڑھا دیا ہے۔

آپ کا ردعمل کیا ہے؟

like

dislike

love

funny

angry

sad

wow