تنقید ضرور کریں لیکن اپنی حد میں رہیں، اسماء عباس
لاہور : پاکستان شوبز انڈسٹری کی سینئر اداکارہ اسماء عباس کا کہنا ہے کہ دیکھنے والے ہمارے کام پر ضرور تنقید کریں لیکن حد سے آگے نہ بڑھیں۔ اسماء عباس نے حال ہی میں ایک یوٹیوب چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے سوشل میڈیا پر ہونے والے نامناسب تبصروں پر اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ تنقید […]
لاہور : پاکستان شوبز انڈسٹری کی سینئر اداکارہ اسماء عباس کا کہنا ہے کہ دیکھنے والے ہمارے کام پر ضرور تنقید کریں لیکن حد سے آگے نہ بڑھیں۔
اسماء عباس نے حال ہی میں ایک یوٹیوب چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے سوشل میڈیا پر ہونے والے نامناسب تبصروں پر اپنے خیالات کا اظہار کیا۔
تنقید اچھی بات ہے لیکن لمٹ کراس نہیں ہونی چاہیے
انہوں نے کہا کہ کسی بھی فنکار کے کام پر تنقید کرنا مداحوں کا حق ہے اسے فنکار کو سننا بھی چاہیے اور برداشت بھی کرنا چاہیے لیکن یہ بھی یاد رہے کہ تنقید کرنے والے ایک حد میں رہیں تھوڑا بہت تو اعتراض تو اچھا لگتا ہے لیکن اپنی لمٹ کراس نہ کریں۔
زرا نور عباس بچپن میں خود کو کیا کہتی تھیں؟
اداکارہ زارا عباس کی والدہ اسماء عباس نے اپنی بیٹی کے ذکر پر بتایا کہ اب اس نام زارا نور عباس صدیقی بن گیا ہے، بچپن کے حوالے سے انہوں نے بتایا کہ جب وہ چھوٹی تھی تو توتلی زبان اپنا نام زارا نور عباس گِل چوہدری بتاتی تھی۔ اب ماشاءاللہ سے خود ایک بیٹی کی ماں بن گئی ہے۔
انہوں نے کہا کہ زارا ویسے تو بہت اچھی اداکارہ ہے اس میں اداکاری کے سارے جراثیم موجود ہیں لیکن میں اس کو مزید اچھا پرفارم کرنے کیلئے مشورے دیتی ہوں کہ کون سا ڈائیلاگ کیسے ادا کرنا چاہیے اور وہ فلمیں ڈرامے دیکھ کر خود بھی سیکھتی ہے۔
ہم نے کبھی اپنے لیے منیجر نہیں رکھے
اپنی بڑی بہن بشریٰ انصاری کی طرح خوش گفتار اسماء عباس نے بتایا کہ ہم نے کبھی اپنے لیے منیجر نہیں رکھے جو بھی فون آتا ہے چاہے وہ انجان نمبر ہی کیوں نہ ہو ریسیو کرلتے ہیں، ایسا نہیں ہے کہ منیجر رکھنا بُری بات ہے بہت سے لوگ رکھتے ہیں خاص طور پر نئے لڑکے لڑکیاں کیونکہ ان کے کام کی نوعیت بھی الگ ہوتی ہے۔
اپنے کام کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ ڈراموں میں اب ہم جیسے لوگوں کیلئے صرف اچھی یا بری ماں اچھی یا بری ساس بس یہی رہ گیا ہے کوئی نئی بات یا نیا کریکٹر سامنے نہیں آرہا اب کچھ الگ اور نیا کردار ادا کرنے کا دل چاہتا ہے۔
کردار جیسا بھی ہو اس میں ورائٹی ہونی چاہیے
اسماء عباس نے اپنے یادگار کرداروں کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ ایک ننھی نامی ڈرامے میں دائی کا منفی کردار مجھے بہت پسند تھا جس میں وہ بچے چُراتی تھی۔ اس کے علاوہ بیٹی ڈرامے میں 85 سالہ خاتون کا کردار کیا جاوید شیخ نے بیٹے کا کردار ادا کیا تھا جس میں ایک منفی کردار تھا کہ وہ بیٹیوں کو جلا کر مار دیتی ہے۔
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ شکل اور خوبصورتی سے زیادہ کام کی اہمیت ہے کردار جیسا بھی ہو اس میں ورائٹی ہونی چاہیے جس کو ادا کرنے میں محنت کرنا پڑے مزہ اسی میں آتا ہے۔
آپ کا ردعمل کیا ہے؟