تختِ طاؤس کی کہانی اور کوہِ نور کا تذکرہ
دنیا کے مختلف خطّوں میں بادشاہ اور سلاطین اپنی جنگی مہمات کے علاوہ خاص طور پر فنِ تعمیر، مختلف یادگاروں، قیمتی اشیاء اور زر و جواہر میں اپنی دل چسپی کے لیے بھی مشہور رہے ہیں ہندوستان میں مغلیہ دور کی تاریخ دیکھی جائے تو اس میں محلّات، مقابر، باغات، بارہ دری اور دوسری مختلف […]
دنیا کے مختلف خطّوں میں بادشاہ اور سلاطین اپنی جنگی مہمات کے علاوہ خاص طور پر فنِ تعمیر، مختلف یادگاروں، قیمتی اشیاء اور زر و جواہر میں اپنی دل چسپی کے لیے بھی مشہور رہے ہیں ہندوستان میں مغلیہ دور کی تاریخ دیکھی جائے تو اس میں محلّات، مقابر، باغات، بارہ دری اور دوسری مختلف یادگار عمارتوں کے ساتھ ہمیں ایک تختِ شاہی کا ذکر بھی ملتا ہے جسے دلّی سے ایران منتقل کر دیا گیا تھا مگر پھر اسے غائب کر دیا گیا۔
ہم بات کررہے ہیں تختِ طاؤس کی جس پر کبھی شاہجہاں رونق افروز ہوتا تھا۔ لیکن وقت نے کروٹ لی اور اس تخت کو مغل خاندان سے چھین لیا گیا۔ محققین کا کہنا ہے کہ 1739ء میں مسلم دنیا کی تین عظیم سلطنتوں عثمانی، فارس اور مغل میں سے مغل سلطنت سب سے زیادہ امیر تھی۔ دلّی دنیا کے عظیم دارالحکومتوں میں سے ایک تھا۔ شاہجہاں، سلطنتِ مغلیہ کا پانچواں شہنشاہ تھا جس نے 1628ء سے 1658ء تک حکومت کی۔ اسے مؤرخین نے فنِ تعمیر کا دلدادہ لکھا ہے اور اسی بناء پر شاہجہاں کو ہندوستان میں معمار شہنشاہ بھی کہا جاتا تھا۔ شہنشاہ نے آگرہ میں دو عظیم مساجد بنام موتی مسجد اور جامع مسجد کے علاوہ تاج محل بھی تعمیر کروایا جسے دنیا کے عجائبات میں سے ایک کہا جاتا ہے۔
طاؤس سے مراد ایک پرندہ ہے جو رنگین اور بڑے پروں کے ساتھ خوب صورتی میں اپنی مثال ہے اور اکثر اس سے مراد مور لیا جاتا ہے۔ شہاب الدّین محمد المعروف "شاہجہاں” نے اپنے لیے جو تخت بنوایا تھا، اسے تختِ طاؤس اس لیے کہا کہ اس پر بڑے بڑے دو مور بنائے گئے تھے۔ محققین کا خیال ہے کہ اسی مناسبت سے یہ تختِ طاؤس مشہور ہوا۔
کہتے ہیں کہ یہ ایک بڑی اور کشادہ کرسی کی طرح تھا، لیکن تقریباً چھ فٹ لمبا اور چار فٹ چوڑا جس کے چار پائے تھے اور یہ سونے کے بنے ہوئے تھے۔ تختِ طاؤس کی ہر سطح پر جواہرات جڑے گئے تھے۔ ان میں کچھ بہت بڑے، کچھ کبوتر کے انڈوں کے برابر دکھائی دیتے تھے۔ اس کی چھت کو زمرد سے مرصع 12 ستونوں نے تھام رکھا تھا اور اس چھت پر بھی ہیرے موتی جڑے ہوئے تھے۔ محققین کا خیال ہے کہ اس کی چھت کو سہارا دینے والے ہر ستون پر جواہرات سے جڑے دو مور بنائے گئے تھے اور ہر مور کے درمیان ہیرے، زمرد، یاقوت اور موتیوں سے ڈھکا ایک درخت بنایا گیا تھا۔ موروں کی چونچ میں موتیوں کی لڑی تھی اور ان موروں کے سینے میں سرخ یاقوت لگائے گئے تھے۔
اسی تخت سے متعلق مشہور ہے کہ اس میں ایک بہت بڑا ہیرا کوہِ نور لگایا گیا تھا جس کے اطراف میں یاقوت اور زمرد جڑے گئے تھے۔ کہا جاتا ہے کہ تختِ طاؤس پر چڑھنے کے لیے تین چھوٹے چھوٹے زینے بھی بنائے گئے تھے۔
تختِ طاؤس کا ذکر ہوتا ہے تو کوہِ نور کی کہانی بھی سامنے آتی ہے جو بعد میں ملکۂ برطانیہ کی ملکیت بنا اور کبھی یہ ہیرا اس تخت کا حصّہ تھا۔ یہ تخت دہلی کے لال قلعے کے دیوانِ خاص میں رکھا گیا تھا۔ ایران کے بادشاہ نادر شاہ درانی کا دلّی پر حملہ اور دلّی کے اجڑنے کی داستان تو شاید آپ نے بھی سنی ہوگئی۔ اسی نادر شاہ نے ہندوستان کے شاہی خاندان کو اس تخت کے ساتھ مشہورِ زمانہ کوہِ نور سے بھی محروم کر دیا تھا۔ تخت طائوس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ جب اسے نادر شاہ درانی اپنے ساتھ لے گیا تو پھر اس کا کچھ پتہ نہ چلا۔ جب اصل تختِ طاؤس دلّی میں نہیں رہا تو اس کی جگہ ایک اور تخت لال قلعے کے اندر رکھ دیا گیا اور اسی کو 1857 کی جنگِ آزادی تک تختِ طاؤس کہا جاتا رہا لیکن ابتدا میں اسے تختِ مرصع کہا گیا تھا۔
مؤرخین کے مطابق تختِ طاؤس 1635ء میں مکمل ہوا تھا اور شاہجہاں اس پر عید الفطر کے روز پہلی مرتبہ رونق افروز ہوئے تھے۔ شاہجہاں کی وفات کے بعد مغلیہ سلطنت کا جو زوال شروع ہوا اس نے نادر شاہ کے حملے میں تخت ہی نہیں اپنی شان و شوکت، عظمت اور دولت سبھی کچھ گنوا دی۔ 1739ء میں نادر شاہ کوہِ نور سمیت تختِ طاؤس یہاں سے لے گیا تھا۔ بعض تاریخی کتب میں ہے کہ 1747ء میں نادر شاہ کے قتل کے ساتھ ہی تختِ طاؤس کو غائب کر دیا گیا۔ غالباً اس تخت میں جڑے جواہر اور اس پر منڈھے سونے کو حاصل کرنے کے لیے ایسا کیا گیا ہو۔ لیکن اس تخت کا حتمی طور پر کچھ پتہ نہ چل سکا، البتہ کوہِ نور ہیرا ملکۂ برطانیہ کی ملکیت بن گیا۔ تاہم اس ہیرے کے حوالے سے دوسرے قصّے بھی مشہور ہیں اور کہا جاتا ہے کہ مغلیہ دور میں کوہِ نور کو تختِ طاؤس کا حصّہ نہیں بنایا گیا تھا۔
آپ کا ردعمل کیا ہے؟