اسکول کی طالبہ کو ڈائنوسار کے قدموں کے نشانات کس طرح ملے؟
ساحال سمندر پر فوسلز ڈھونڈنے کے لیے جانے والی اسکول کی طالبہ کو ہزاروں سال پرانے ڈائنوسار کے قدموں کے نشانات مل گئے۔ یہ بات کتنی حیران کن ہوگی کہ آپ ساحل سمندر پر چہل قدمی کررہے ہوں اور اس دوران اچانک آپ کو 200 ملین سالوں سے پتھر میں محفوظ ڈائنوسار کے قدموں کے […]
ساحال سمندر پر فوسلز ڈھونڈنے کے لیے جانے والی اسکول کی طالبہ کو ہزاروں سال پرانے ڈائنوسار کے قدموں کے نشانات مل گئے۔
یہ بات کتنی حیران کن ہوگی کہ آپ ساحل سمندر پر چہل قدمی کررہے ہوں اور اس دوران اچانک آپ کو 200 ملین سالوں سے پتھر میں محفوظ ڈائنوسار کے قدموں کے نشانات مل جائیں، یہ بچوں کی کسی کہانی کا حصہ نہیں بلکہ 10 سالہ برطانوی لڑکی ٹیگن کے ساتھ یہ واقعہ پیش آچکا ہے۔
جنوبی ویلز کے ساحل پر اسکول کی طالبہ ٹیگن اپنی ماں کے ساتھ فوسل ڈھونڈنے کے لیے پہنچی تھی تاہم اس کے لیے سیر و تفریح ایک دلچپس حقیقت بن گئی۔
ٹیگن نے کچھ فوسلز کی تلاش میں اپنی والدہ کلائر کے ساتھ پونٹارڈوے سے ویلی آف گلیمورگن تک کا سفر کیا تھا، اس دوران انھوں نے سرخ سلٹ اسٹون چٹان کے درمیان ایک جگہ کا انتخاب کیا کہ وہاں فوسلز کو ڈھونڈا جائے۔
تاہم اسکول کی طالبہ کو یہاں 200 ملین سال پرانے ڈائنوسار کے قدموں کے نشانات ملے وہ بھی صرف ایک نہیں بلکہ ٹیگن کو پانچ قدموں کے نشان ملے جو کافی بڑے سائز کے ڈائنوسار کی نشاندہی کرتے ہیں۔
ٹیگن نے بتایا کہ ہم صرف یہ دیکھنے کے لیے نکلے تھے کہ ہمیں یہاں کیا مل سکتا ہے، ہمیں نہیں لگتا تھا کہ ہمیں کچھ ملے گا، ہم نے دیکھا کہ یہ بڑے سوراخ ہیں جو ڈائنوسار کے قدموں کے نشانات کی طرح نظر آتے ہیں۔
طالبہ نے کہا کہ میری ماں نے ان نشانات کی کچھ تصویریں لیں اور میوزیم کو ای میل کی، جس پر یہ انکشاف ہوا کہ یہ پاؤں کے نشانات لمبی گردن والے ڈائنوسار کے تھے۔
نیشنل میوزیم ویلز کی ماہر حیاتیات سنڈی ہویلز کے مطابق، صحیح نسل کی تصدیق ہونا ابھی باقی ہے، لیکن خیال کیا جاتا ہے کہ ان کو کیملوٹیا نے چھوڑا ہے، جو ٹرائیسک دور کے آخر میں ایک بہت بڑے سبزی خور جانور ہوا کرتے تھے۔
انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ یہ قدموں کے نشانات اتنے بڑے ہیں کہ یہ ایک قسم کا ڈائنوسار ہوگا جسے سوروپوڈومورفا کہتے ہیں۔
آپ کا ردعمل کیا ہے؟