اسماعیل ہنیہ: شہادت کا ایک پھول اور کِھلا!
31 جولائی کو شہادت کا ایک اور پھول کھلا اور اسماعیل ہنیہ اپنا گھر بار گنوانے، اپنے لختِ جگر اور اعزّہ کی قربانیاں دیکھنے کے بعد خود بھی مادرِ گیتی پر نثار ہوئے گئے۔ یہ ارضِ فلسطین کا آخری بیٹا نہیں تھا جس نے اب آنکھیں موند لی ہیں بلکہ اسماعیل ہنیہ کی شہادت کے […]
31 جولائی کو شہادت کا ایک اور پھول کھلا اور اسماعیل ہنیہ اپنا گھر بار گنوانے، اپنے لختِ جگر اور اعزّہ کی قربانیاں دیکھنے کے بعد خود بھی مادرِ گیتی پر نثار ہوئے گئے۔ یہ ارضِ فلسطین کا آخری بیٹا نہیں تھا جس نے اب آنکھیں موند لی ہیں بلکہ اسماعیل ہنیہ کی شہادت کے بعد کفایہ پر مزاحمت کا رنگ مزید گہرا ہوگیا ہے۔ اب یحیٰی السنوار سامنے آئے ہیں جنھیں اکثر خان یونس کے قصاب کے نام سے بھی یاد کیا جاتا ہے۔
قطر کے دارالحکومت دوحہ میں مزاکرات کے بعد حماس نے اسماعیل ہنیہ کی جگہ یحیٰی السنوار کو نیا سربراہ مقرر کرنے کا اعلان کیا ہے۔ حالیہ فیصلے کے بعد فلسطین میں شاخِ زیتون کی چمک اور اس کے روغن کی آب و تاب بڑھ گئی ہے جب کہ اسرائیل کی غزہ اور دیگر علاقوں میں قیامت خیز کارروائیاں بھی جاری ہیں۔ اسرائیل میں پچھلے سال 7 اکتوبر کو حماس کی کارروائی کے بعد اسرائیل نے اس کے خلاف کارروائی کی آڑ میں فلسطینیوں پر گولہ بارود برسانے کا جو سلسلہ شروع کیا تھا، وہ تاحال جاری ہے اور امریکا کی ناجائز اولاد اسرائیل اپنے دفاع کے نام پر فلسطینیوں کی نسل کشی کررہا ہے۔
اسرائیل کے حملوں میں اسماعیل ہنیہ سے قبل حماس کے متعدد راہ نما اور کارکن مارے جا چکے ہیں۔ حماس کے سیاسی ونگ کے سربراہ اسماعیل ہنیہ ایک عرصہ سے متحدہ عرب امارات میں مقیم تھے۔ انھیں مسعود پزشکیان کی بطور صدر تقریبِ حلف برداری میں مدعو کیا گیا تھا اور وہیں تہران میں ان پر حملہ کیا گیا جس میں وہ شہید ہوئے۔ اس کا الزام اسرائیل پر عائد کیا جارہا ہے، لیکن اسرائیل نے چپ سادھ رکھی ہے۔ ایران نے اسرائیل سے اس کا بدلہ لینے کا اعلان کیا جس کے بعد مشرقِ وسطیٰ پر جنگ کے بادل منڈلا رہے ہیں۔
ارضِ فلسطین پر صہیونی ریاست کا قیام اور اس کے لیے صدیوں سے وہاں بسے ہوئے عرب مسلمانوں کی جبراً بے دخلی اس دنیا کی تاریخ کا سب سے بڑا ننگ اور غضب ہے۔ دنیا یہ بھی دیکھ رہی ہے کہ اسرائیل کس طرح نہتے فلسطینیوں اور محدود وسائل اور صلاحیت کے حامل حماس اور دوسرے مزاحمتی گروہوں سے اپنی تربیت یافتہ اور باقاعدہ فوج کے ذریعے جنگ لڑتے ہوئے بین الاقوامی قوانین اور اصولوں کو روند رہا ہے، لیکن اس پر خاموشی اختیار کررکھی ہے۔ غزہ میں انسانی آبادیوں، گھروں اور اسپتالوں پر بمباری، فلسطینیوں کو ڈھال بنا کر حماس کے خلاف کارروائی، طبّی امداد اور خوراک پہچانے والی تنظیموں کے رضا کاروں کو نشانہ بنانا اور گولہ بارود کی زد پر رکھنا اسرائیل کے نزدیک اگر جنگ ہے، تو حماس اور دوسر ے مزاحمتی گروہ یہ جنگ اُس وقت تک جاری رکھنے کا عزم کیے ہوئے ہیں جب تک ایک بھی رکن زندہ ہے۔
دنیا کی تاریخ بتاتی ہے کہ کئی جنگوں اور خوں ریز واقعات کی بنیاد جبر اور وہ ناانصافی تھی جس سے نفرت اور انتقام کا جذبہ ایک نسل سے دوسری نسل میں منتقل ہوا۔ اقوام یا مختلف خطّوں میں لسانی، مذہبی اور ثقافتی گروہوں کو جب بھی موقع ملا انھوں نے اپنے دشمن کو انتقام کی آگ میں پھونک دیا۔ کیا اسرائیل یہ سمجھتا ہے کہ جن بچّوں کی آنکھوں کے سامنے ان کے والدین، بہن بھائی مارے جارہے ہیں، وہ بڑے ہو کر اسرائیل کا وجود تسلیم کرلیں گے یا موقع ملنے پر اپنی زمین چھوڑ کر کسی دوسرے ملک چلے جائیں گے تاکہ باقی ماندہ زندگی وہاں عافیت سے بسر کرسکیں؟ فلسطین یا کسی بھی سرزمین سے اس قوم کا وجود مٹانا آسان نہیں جو صدیوں سے وہاں بسی ہوئی ہے۔ اقوامِ عالم میں بدنام اور دہشت گرد اسرائیل یہ بات بخوبی جانتا ہے کہ صہیونی ریاست کے قیام اور استحکام کے لیے اس کا یہ قتلِ عام اور تشدد ہر فلسطینی بچّے میں جذبۂ حریّت اور انتقام کو مہمیز دے رہا ہے۔ اس لیے یاد رکھنا چاہیے کہ اسرائیل کا مقصد صرف غزہ اور دیگر علاقوں سے فلسطینیوں کی بے دخلی ہی نہیں ہوگا بلکہ وہ فلسطینی مسلمانوں کی نسل کُشی کا عزم کیے ہوئے ہے۔ اس بات کو تقویت ملتی ہے، وزیرِ اعظم نیتن یاہو کے اُس بیان سے جس میں وہ دنیا سے شیطانی قوت (حماس) کو جڑ سے اکھاڑ دینے کا عزم ظاہر کرتے ہوئے عہدنامۂ عتیق (تورات) سے ایک پیرا کا حوالہ دیتا ہے۔ دنیا کے مختلف ممالک میں دانش ور اور انسان دوست شخصیات نے نیتن یاہو کے اس بیان کی سخت الفاظ میں مذمت کی ہے اور اسے سفاک اور جنونی کہا ہے۔
آج اسرائیل کی آبادی لگ بھگ 98 لاکھ بتائی جاتی ہے جس میں یہودی اور وہ فلسطینی شامل ہیں جو اسرائیل میں بسے ہوئے ہیں۔ دوسری جانب مقبوضہ فلسطین کا وہ علاقہ ہے جس میں غربِ اردن اور غزہ شامل ہیں اور وہاں کی آبادی پچپن لاکھ ہے۔ لیکن 1948ء سے قبل صورتِ حال مختلف تھی۔ اسرائیلی ریاست کے قیام سے پہلے لگ بھگ پانچ سو دیہات اور قصبات میں آباد ساڑھے سات لاکھ فلسطینیوں کو ان کے گھروں سے یک دم نکال کر ہمسائیہ ممالک میں دھکیل دیا گیا تھا۔ اسی سال اقوامِ متحدہ نے ایک قرار میں ان فلسطینیوں کی واپسی کا وعدہ کیا۔ لیکن ایسا نہیں ہوا اور فلسطینیوں کی زمین حیلے بہانوں اور طاقت کے بل پر ہتھیانے کا سلسلہ آج تک جاری ہے۔ عرب مسلمانوں کو اسرائیل کی حدود میں جانے کے لیے توہین آمیز سلوک برداشت کرنا پڑتا ہے۔ قدم قدم پر چوکیاں ہیں جہاں تلاشی اور کاغذات دیکھنے کے بہانے ان کی تذلیل کی جاتی ہے۔ ان کی نگرانی کی جاتی ہے اور فلسطینی اپنی ہی زمین پر قیدی کی طرح رہنے پر مجبور ہیں۔ 2018ء میں اسرائیلی عرب شہریوں پر عرصۂ حیات اس وقت مزید تنگ ہو گیا جب پارلیمنٹ نے قومی ریاست کا ایکٹ منظور کیا۔ اس ایکٹ کے تحت اسرائیل کو یہودیوں کا وطن قرار دیا گیا۔ جب کہ غیر یہودیوں کو اس ایکٹ کے ذریعے باضابطہ طور پر درجہ دوم کا شہری بنا دیا گیا۔
فلسطین میں اترنے والے صیہونیوں نے اپنے گھناؤنے منصوبے کے تحت مقامی لوگوں کی بے دخلی کے ساتھ ان کے تاریخی محلّے اور عمارتیں مسمار کرکے وہاں جدید تعمیرات کی ہیں۔ قدیم آبادیوں کے صدیوں پرانے نام تبدیل کیے اور اپنے تعلیمی نصاب کو اس طرح ترتیب دیا کہ جو تاریخی حقائق کو مسخ اور لسانی و ثقافتی اقدار کو یکسر مٹا کر نئی ریاست کی سیاسی، مذہبی، تاریخی و ثقافتی شناخت کو اجاگر کرے اور نئی نسل اسے قبول کرلے۔ اسرائیلی حکومت نے کتب خانوں اور بلدیہ کی عمارتوں کو اس لیے اڑا دیا کہ کہیں کئی سو سال پرانا ریکارڈ، شہر کی تاریخ اور فلسطین کی اصل شناخت سے متعلق نادر دستاویز موجود ہوں تو باقی نہ رہیں تاکہ ازسرِ نو مرضی کا ریکارڈ بنا کر خطّے میں اپنی شناخت کو قائم کیا جاسکے۔
فلسطینی شہری فوجی قوانین کے تحت محدود نقل و حرکت کے ساتھ کئی مسائل کا سامنا کررہے ہیں۔ جب کہ 1966ء میں اسرائیل کے فلسطینی شہریوں کو فوجی قوانین سے آزاد کرتے ہوئے ریاست نے قانونی شہری تو تسلیم کیا مگر عملاً وہ اب تک دوسرے درجے کے ہی شہری ہیں۔ ان سے صحت، تعلیم و روزگار اور رہائش سمیت ہر شعبے میں امتیازی سلوک برتا جاتا ہے اور وہ گویا ایک قید خانے میں زندگی بسر کررہے ہیں۔ اس کے علاوہ اسرائیلی عربوں کو ثقافتی اظہار سے روکا گیا ہے۔ حتیٰ کہ فلسطین کا جھنڈا لہرانے پر بھی سزا دی جاسکتی ہے۔
اسرائیلی فوج دنیا کی ایک تربیت یافتہ اور جدید اسلحے اور جنگی ساز و سامان سے لیس طاقت وَر فوج ہے۔ اسرائیلی فوج اور عرب ممالک سے اس کی جنگیں اس بات کا ثبوت ہیں کہ اسرائیل نے متحد عرب افواج کا مقابلہ کرتے ہوئے عرب ممالک کے کئی علاقوں پر قبضہ بھی کرلیا تھا، اور آج اسرائیل سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدان میں دوسری اقوام سے آگے ہے۔ اب صرف حماس کی بات کریں تو وہ اپنی مالی اور دفاعی ضروریات کے لیے بالخصوص ایران کی طرف دیکھتا ہے جب کہ لبنان، شام اردن، عراق اور دوسرے عرب ممالک سے امداد کا خواہاں رہتا ہے۔ ادھر اسرائیل کا جاسوس نیٹ ورک بڑا مضبوط ہے اور اسی کی بدولت اسماعیل ہنیہ یا دوسرے حماس اور حزب اللہ کے بڑے راہ نماؤں کو اسرائیل اپنا نشانہ بنا چکا ہے۔ زمینی فوج کے علاوہ اسرائیل کی فضائیہ نے بھی اپنے اہداف کو کام یابی سے نشانہ بنایا ہے۔
یہ درست ہے کہ حماس، حزب اللہ اور ایران یا دیگر عرب ممالک کے حمایت یافتہ گروہ اسرائیل کو معمولی نقصان تو پہنچا رہے ہیں، لیکن اسرائیل جواب میں اَن گنت معصوم، نہتّے اور بے گناہ شہریوں کو شہید کر دیتا ہے۔ حالیہ جنگ بھی حماس کی ایک ایسی ہی کارروائی کا نتیجہ ہے جس میں حماس نے اسماعیل ہنیہ کو کھویا اور اسماعیل ہنیہ نے جان دینے سے قبل بہت کچھ گنوایا جس میں ان کی اولادوں بھی شامل تھی۔ لیکن کیا ایک نادارِ زمانہ، ستم رسیدہ اور درماندہ قوم کو اسرائیل کے آگے سَر جھکا دینا چاہیے تاکہ ان کا گھر بار، بچّے اور زندگی محفوظ رہے؟ محکوم اقوام کی تاریخ دیکھی جائے تو وہ اس خیال اور خواہش کی نفی کرتی ہے۔ فلسطین بالخصوص غزہ اور دوسرے علاقے وہاں کے باشندوں کے لیے قید خانے سے کم نہیں اور وہ روزانہ جس اذّیت، کرب اور مقبوضہ علاقے میں داخلے پر جس ذلّت اور توہین کا سامنا کئی دہائیوں سے کرتے آرہے ہیں، اس کے مقابلے میں موت کچھ نہیں ہے۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ جب فلسطینی باشندےعالمی ادارۂ انصاف، خاص طور پر اسلامی دنیا کی طرف دیکھتا ہے تو انھیں کس قدر رنج اور مایوسی ہوتی ہے۔ ان حالات میں وہ یہ سوچتے ہیں کہ انھیں اپنی جنگ خود ہی لڑنا ہے اور مسلمان برادری نے انھیں تنہا چھوڑ دیا ہے۔
اسماعیل ہنیہ کی شہادت نے جہاں حماس کو دھچکا پہنچایا وہیں ایران کو عالمی سطح پر خفّت کا سامنا بھی کرنا پڑا کیوں کہ اس کے ملک میں ایک مہمان شخصیت کو اتنی آسانی سے قتل کردیا گیا، اور اب شاید ایران موقع اور ہدف کا انتظار کررہا ہے، لیکن تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ایران صیہونی ریاست کے خلاف کوئی بڑی کارروائی نہیں کرسکے گا اور یہ صرف دھمکیاں ہیں۔ ہمارے سامنے ہے کہ اسرائیل کی جانب سے جنگ مسلّط کرنے کے بعد سے اب تک کوئی بھی اسلامی ملک زبانی جمع خرچ سے آگے نہیں بڑھ سکا ہے۔ مگر شاید فلسطینی اب اس کے عادی ہوچکے ہیں اور وہ جان چکے ہیں کہ ان کو اپنی جنگ لڑتے رہنا ہے۔ اسماعیل ہنیہ نے بھی کہا تھا، ’اس خون سے ہم مستقبل کی امید پیدا کریں گے اور اپنے لوگوں، اپنے مقصد اور اپنی قوم کے لیے آزادی حاصل کریں گے۔‘
آپ کا ردعمل کیا ہے؟