وادیٔ مہران کے استاد بیبو خان کا تذکرہ

سندھ دھرتی کے مشہور موسیقاروں، گلوکاروں اور بالخصوص کلاسیکی موسیقی اور راگ راگنیوں کے ماہر فن کاروں میں استاد بیبو خان کا نام بھی شامل ہے جو 25 مارچ 1952ء کو انتقال کرگئے تھے۔ آج استاد بیبو خان کی برسی ہے۔ استاد بیبو خان کا تعلق سندھ کے تاریخی اہمیت کے حامل شہر شکار پور […]

 0  5
وادیٔ مہران کے استاد بیبو خان کا تذکرہ

سندھ دھرتی کے مشہور موسیقاروں، گلوکاروں اور بالخصوص کلاسیکی موسیقی اور راگ راگنیوں کے ماہر فن کاروں میں استاد بیبو خان کا نام بھی شامل ہے جو 25 مارچ 1952ء کو انتقال کرگئے تھے۔ آج استاد بیبو خان کی برسی ہے۔

استاد بیبو خان کا تعلق سندھ کے تاریخی اہمیت کے حامل شہر شکار پور سے تھا۔ ان کا اصل نام محمد ابراہیم قریشی تھا۔ وہ 1904ء میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد بھی فنِ موسیقی اور گائیکی سے وابستہ تھے۔ انھیں استاد گامن خان کے نام سے پہچانا جاتا ہے۔ بیبو خان نے موسیقی کے ابتدائی رموز اپنے والد ہی سے سیکھے۔ بعد میں انھوں نے استاد مبارک علی خان اور استاد مراد علی سے موسیقی کی تربیت حاصل کی۔ بیبو خان کے والد دھرپد گانے میں بڑی مہارت رکھتے تھے اور بیبو خان بھی اس میں ماہر ہوئے۔ ان کی گائیکی کا بہت شہرہ ہوا۔ انھیں تقسیم سے قبل آل انڈیا ریڈیو، بمبئی پر ہر ماہ گانے کے پروگرام میں مدعو کیا جاتا تھا اور وہ اپنے فن کا جادو جگا کر داد پاتے تھے۔ اس زمانے میں لوگوں کی تفریح اور موسیقی یا شعر و ادب کے ذوق کی تسکین کا واحد ذریعہ ریڈیو تھا اور استاد بیبو خان کو بھی اس میڈیم کی بدولت دور دور تک سنا اور پہچانا گیا۔ اس دور میں کلاسیکی موسیقی کے شائقین بھی موجود تھے اور اس فن کی نزاکتوں اور باریکیوں
کو سمجھنے والے بھی۔ بعد میں یہ سلسلہ دم توڑ گیا، لیکن استاد بیبو خان نے اپنا فن اگلی نسل میں منتقل کیا۔ استاد بیبو خان کے شاگردوں میں‌ متعدد اپنے فن میں‌ ماہر اور نام ور ہوئے۔ ان میں قدرت اللہ خان، نیاز حسین، فدا حسین خان کو استاد کا درجہ حاصل ہوا جب کہ محمد ہاشم کچھی، ہادی بخش خان، مائی اللہ وسائی، محمد صالح ساند اور اللہ دینو نوناری نے بھی خون نام اور مقام پیدا کیا۔

سندھ کے اس معروف فن کار نے حیدر آباد میں وفات پائی اور ٹنڈو یوسف کے قبرستان میں سپردِ خاک کیا گیا۔

آپ کا ردعمل کیا ہے؟

like

dislike

love

funny

angry

sad

wow