رنگا ہوا سیّار (ایک دل چسپ کہانی)

ایک دفعہ ایک گیدڑ کھانے کی تلاش میں مارا مارا پھر رہا تھا۔ وہ دن اس کے لیے بہت منحوس ثابت ہوا اور اسے دن بھر بھوکا رہنا پڑا۔ وہ بھوکا اور تھکا ہارا چلتا رہا۔ راستہ ناپتا رہا۔ بالآخر لگ بھگ دن ڈھلے وہ ایک شہر میں پہنچا۔ اسے یہ بھی احساس تھا کہ […]

 0  2
رنگا ہوا سیّار (ایک دل چسپ کہانی)

ایک دفعہ ایک گیدڑ کھانے کی تلاش میں مارا مارا پھر رہا تھا۔ وہ دن اس کے لیے بہت منحوس ثابت ہوا اور اسے دن بھر بھوکا رہنا پڑا۔

وہ بھوکا اور تھکا ہارا چلتا رہا۔ راستہ ناپتا رہا۔ بالآخر لگ بھگ دن ڈھلے وہ ایک شہر میں پہنچا۔ اسے یہ بھی احساس تھا کہ ایک گیدڑ کے لیے شہر میں چلنا پھرنا خطرے سے خالی نہیں ہے۔ لیکن بھوک کی شدت کی وجہ سے یہ خطرہ مول لینے پر مجبور تھا۔ ’’مجھے بہرحال کھانے کے لیے کچھ نہ کچھ حاصل کرنا ہے۔‘‘ اس نے اپنے دل میں کہا۔ ’’لیکن خدا کرے کہ کسی آدمی یا کتے سے دو چار ہونا نہ پڑے۔‘‘ اچانک اس نے خطرے کی بو محسوس کی۔ کتے بھونک رہے تھے۔ وہ جانتا تھا کہ وہ اس کے پیچھے لگ جائیں گے۔

وہ ڈر کر بھاگا۔ لیکن کتوں نے اسے دیکھ لیا اور اس کے پیچھے دوڑے۔ کتوں سے پیچھا چھڑانے کے لیے گیدڑ تیز بھاگنے لگا لیکن کتے اس کے قریب پہنچ گئے۔ گیدڑ جلدی سے ایک مکان میں گھس گیا۔ یہ مکان ایک رنگ ریز کا تھا۔ مکان کے صحن میں نیلے رنگ سے بھرا ہوا ایک ٹب رکھا ہوا تھا۔ گیدڑ کو کتوں نے ڈھونڈنے کی لاکھ کوشش کی مگر اس کا کہیں پتہ نہیں چلا۔ کتے ہار کر واپس چلے گئے۔ گیدڑ اس وقت تک ٹب میں چھپا رہا جب تک کتوں کے چلے جانے کا اس کو یقین نہ ہو گیا۔ پھر وہ آہستہ آہستہ ٹب سے باہر نکل آیا۔ وہ پریشان تھا کہ اب وہ کیا کرے۔ اس نے سوچا کہ اس سے پہلے کہ کوئی آدمی یا کتا دیکھ لے جنگل واپس چلنا چاہیے۔

وہ جلدی جلدی جنگل واپس آیا۔ جن جانوروں نے اسے دیکھا، ڈر کر بھاگے۔ آج تک انہوں نے اس طرح کا جانور نہیں دیکھا تھا۔

گیدڑ بھانپ گیا کہ سبھی جانور اس سے ڈر رہے ہیں۔ بس پھر کیا تھا۔ اس کے دماغ میں ایک ترکیب آئی۔ وہ چیخ چیخ کر جانوروں کو پکارنے لگا۔ ’’ٹھہرو۔ دم لو۔ کہاں جاتے ہو؟ یہاں آؤ۔ میری بات سنو۔‘‘

سارے جانور رک کر گیدڑ کو تاکنے لگے۔ اس کے پاس جاتے ہوئے وہ اب بھی ڈر رہے تھے۔ گیدڑ پھر چلا کر بولا۔ ’’آؤ میرے پاس آؤ۔ اپنے سبھی دوستوں کو بلا لاؤ۔ مجھے تم سب سے ایک ضروری بات کہنا ہے۔‘‘

ایک ایک کر کے سبھی جانور نیلے گیدڑ کے پاس پہنچے۔ چیتے، ہاتھی، بندر، خرگوش، ہرن۔ غرض سبھی جنگلی جانور اس کے چاروں طرف کھڑے ہو گئے۔

چالاک گیدڑ نے کہا کہ، ’’مجھ سے ڈرو نہیں۔ میں تمہیں کوئی نقصان نہیں پہنچاؤں گا۔ خدا نے مجھے تمہارا بادشاہ بنا کر بھیجا ہے میں ایک بادشاہ کی طرح سب کی حفاظت کروں گا۔‘‘

سب جانوروں نے اس کی بات کا یقین کر لیا اور اس کے سامنے سر جھکا کر بولے ’’ہمیں آپ کی بادشاہت قبول ہے۔ ہم اس خدا کے بھی شکر گزار ہیں جس نے آپ کو ہماری حفاظت کی ذمہ سونپ دی ہے۔ ہم آپ کے حکم کے منتظر ہیں۔‘‘

نیلے گیدڑ نے کہا۔ ’’تمہیں اپنے بادشاہ کی اچھی طرح دیکھ بھال کرنی ہوگی۔ تم مجھے ایسے کھانے کھلایا کرو جو بادشاہ کھاتا ہے۔‘‘ ’’ضرور حضور والا۔‘‘ سبھی جانوروں نے ایک ہی آواز میں کہا۔’’ہم دل و جان سے اپنے بادشاہ کی خدمت کریں گے۔ فرمائیے اس کے علاوہ ہمیں اور کیا کرنا ہوگا؟‘‘

’’تمہیں اپنے بادشاہ کا وفادار رہنا ہے۔‘‘ نیلے گیدڑ نے جواب دیا۔ ’’تبھی تمہارا بادشاہ تمہیں دشمنوں سے محفوظ رکھ سکتا ہے۔‘‘

گیدڑ کی اس بات سے سبھی جانوروں کو تسلّی ہوئی۔ وہ اس کے لیے قسم قسم کے مزیدار کھانے لانے لگے اور اس کی خاطر مدارات کرنے لگے۔ گیدڑ اب بادشاہ کی طرح رہنے لگا۔ سب جانور روزانہ اس کی خدمت میں حاضر ہو کر اسے سلام کرتے اپنی مشکلیں اسے بتاتے۔ بادشاہ ان کی باتوں کو سنتا اور ان کی مشکلوں کا حل بتاتا۔

ایک دن جب بادشاہ دربار میں بیٹھا تھا تو دور سے کچھ شور سنائی دیا۔ یہ گیدڑ کے غول کی آواز تھی۔ اب اپنے بھائیوں کی آٰواز سنی تو بہت خوش ہوا اور خوشی کے آنسوؤں سے اس کی آنکھیں بھر آئیں۔ اسے اپنی بادشاہت کا بھی خیال نہ رہا اور اپنا سر اٹھا کر اس نے بھی گیدڑوں کی طرح بولنا شروع کر دیا۔ اس کا بولنا تھا کہ جانوروں پر اس کی اصلیت کھل گئی۔ انہیں معلوم ہو گیا کہ یہ رنگا ہوا سَیّار ہے۔ اس نے انہیں دھوکے میں رکھا ہے۔ سب جانور مارے غصہ کے اسے پھاڑ کھانے کے لیے اس پر چڑھ دوڑے۔ لیکن گیدڑ نے تو پہلے ہی سے بھاگنا شروع کر دیا تھا۔ وہ بھاگتا گیا تیز اور تیز اور آخرکار سب کی پہنچ سے باہر نکل گیا اور اس طرح اس کی جان بن بچی۔

( ترجمہ: ساحر ہوشیار پوری)

آپ کا ردعمل کیا ہے؟

like

dislike

love

funny

angry

sad

wow