خاتون 3 ماہ میں ان پڑھ سے پڑھی لکھی بنی اور اقوام متحدہ سے ایوارڈ جیت لیا

ناخواندہ مگر باہمت خاتون عائشہ نے صرف تین ماہ میں خود کو خواندہ بنا کر اقوام متحدہ سے ایک بڑا ایوارڈ حاصل کر لیا۔ یہ باہمت خاتون سعودی عرب کے عائشہ الشبیلی ہیں جنہوں نے اقوام متحدہ سے بیروزگاری کے خاتمے کی کوشش پر ایوارڈ حاصل کیا لیکن ان کی یہ کاوش کٹھن جدوجہد پر […]

 0  1
خاتون 3 ماہ میں ان پڑھ سے پڑھی لکھی بنی اور اقوام متحدہ سے ایوارڈ جیت لیا

ناخواندہ مگر باہمت خاتون عائشہ نے صرف تین ماہ میں خود کو خواندہ بنا کر اقوام متحدہ سے ایک بڑا ایوارڈ حاصل کر لیا۔

یہ باہمت خاتون سعودی عرب کے عائشہ الشبیلی ہیں جنہوں نے اقوام متحدہ سے بیروزگاری کے خاتمے کی کوشش پر ایوارڈ حاصل کیا لیکن ان کی یہ کاوش کٹھن جدوجہد پر مبنی ہے جس پر خود اقوام متحدہ کو کہنا پڑا ہے کہ ’ناخواندہ جس نے دنیا کو رُلا دیا‘۔

سعودی ٹی وی چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے باہمت خاتون عائشہ الشبیلی نے بتایا کہ ان کا تعلق جازان ریجن سے ہے اور وہ کسی وجہ سے تعلیم حاصل نہیں کر سکیں۔ انہوں نے بیروزگاری خاتمے کی مہم کے دوران دستکاری کی صنعت کے ذریعے اپنے ہنر کو پھیلایا اور دوسروں کے لیے امید جگائی۔

عائشہ کا کہنا تھا کہ میں مکمل طورپر ناخواندہ تھی، لکھنا تو دور کی بات تحریر پڑھنا بھی میرے لیے ممکن نہیں تھا۔ اقوام متحدہ کی جانب سے گھریلو صنعت کے بارے عالمی مقابلے میں اپنے کام کی وڈیو بنا کر ارسال کردی۔ مقابلے کی شرائط میں سب سے اہم ’مجھے ناخواندہ نہیں ہونا چاہیے‘ کے عنوان سے تھی۔

انہوں نے بتایا کہ مقابلے کے لیے ارسال کی گئی میری وڈیو منتظمین کو پسند آئی، جس میں مجھے کام کرتے دکھایا گیا تھا۔ ویڈیو تو انہیں پسند آئی مگر مقابلے میں شرکت کی اہلیت کے لیے مجھے پڑھا لکھا ہونا تھا اور اس کے لیے میرے پاس صرف 3 ماہ کا وقت تھا۔

باہمت خاتون نے کہا کہ وہ تین ماہ میری زندگی کا ٹرننگ پوائنٹ ثابت ہوئے کیونکہ میں نے اس دوران وہ کچھ حاصل کیا جو اب تک اپنی پوری زندگی میں حاصل نہیں کر سکتی تھی۔ میں نانی اور دادی بن چکی ہوں، تاہم میں نے اپنے عزم کے آگے عمر کو رکاوٹ نہ بننے دیا اور تین ماہ کے اندر میں نے لکھنا پڑھنا سیکھ لیا اور مقابلے کے لیے اپنی اہلیت ثابت کر دی۔

عائشہ کا کہنا تھا کہ جب میں ایوارڈ لینے کے لیے اقوام متحدہ کے سیشن گئی تو وہ لمحہ میرے لیے ناقابل فراموش ہے۔ اس وقت میں نے اپنے خیالات کا اظہار کرنے کے لیے پہلے سے تحریر کردہ پرچہ نکالا تو اپنے جذبات پر قابو نہ رکھ سکی اور اسٹیج پر ہی رو گئی تھی۔

ایوارڈ لینے کے بعد جب واپس لوٹی تو میرا سوچ اور نظریہ ہی بدل چکا تھا۔ اس کے بعد میں نے ایک تعلیم کے لیے فلاحی ادارہ بنانے کا فیصلہ کیا اور وہ قائم بھی کیا۔

عائشہ نے یہ بھی بتایا کہ ان کے رونے کی وجہ جان کر اقوام متحدہ کے سیشن میں میرے بارے میں یہ الفاظ لکھے گئے’’وہ ناخواندہ جس نے دنیا کو رلا دیا‘‘۔

خاتون نے ایوارڈ کے حصول کے بعد تعلیم کا سلسلہ دراز کیا۔ میٹرک اور انٹر کرنے کے بعد اب وہ عرب یونیورسٹی کی طالبہ ہیں۔

آپ کا ردعمل کیا ہے؟

like

dislike

love

funny

angry

sad

wow