حیدر بخش جتوئی: سندھ کے ہاریوں کی آنکھ کا تارا
کو ’’بابائے سندھ‘‘ کہا جاتا ہے۔ انھیں ہر طبقۂ عوام میں یکساں احترام اور پسندیدگی حاصل تھی اور انھیں عوام نے یہ لقب دیا تھا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ حیدر بخش جتوئی کی زندگی غریب عوام کے حقوق کے لیے جدوجہد میں گزری جس نے انھیں ہر دل عزیز شخصیت بنا دیا تھا۔ […]
کو ’’بابائے سندھ‘‘ کہا جاتا ہے۔ انھیں ہر طبقۂ عوام میں یکساں احترام اور پسندیدگی حاصل تھی اور انھیں عوام نے یہ لقب دیا تھا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ حیدر بخش جتوئی کی زندگی غریب عوام کے حقوق کے لیے جدوجہد میں گزری جس نے انھیں ہر دل عزیز شخصیت بنا دیا تھا۔ آج ہلالِ امتیاز پانے والے کامریڈ حیدر بخش جتوئی کی برسی ہے۔
حیدر بخش جتوئی صوبۂ سندھ کی ایک سیاسی، سماجی اور علمی و ادبی شخصیت تھے اور انھیں ہاری راہ نما اور شاعر کے طور پر پہچانا جاتا ہے۔ لاڑکانہ ان کا آبائی علاقہ تھا جہاں وہ سنہ 1900ء میں پیدا ہوئے تھے۔ ابتدائی تعلیم مکمل کرنے کے بعد حیدر بخش جتوئی نے بمبئی یونیورسٹی سے گریجویشن اور آنرز کی تکمیل کی، جس کے بعد سرکاری ملازمت اختیار کی لیکن جلد ہی اسے خیرباد کہہ دیا۔ پیدائش کے فوراً بعد وہ والدہ کی آغوش سے محروم ہوگئے تھے۔ 11 سال کے ہوئے تو اسکول میں داخل کروایا گیا، جہاں ایک موقع پر لاڑکانہ کے اس وقت کے ڈپٹی کمشنر آئے۔ حیدر بخش جتوئی سے ڈپٹی کمشنر نے کچھ بات کی تو اندازہ ہوا کہ بچّہ نہایت قابل اور پُراعتماد ہے۔ کہتے ہیں کہ انھوں نے حیدر بخش کے والد سے ملاقات کی اور انھیں کہا کہ حیدر بخش غیر معمولی صلاحیت کا حامل ہے، اس کی تعلیم و تربیت پر خاص توجہ دیں اور اعلیٰ تعلیم دلوائیں۔ حیدربخش جتوئی نے سندھ کے مشہور ادارے مدرسۃُ الاسلام سے کراچی میں تعلیمی مراحل طے کرتے ہوئے نمایاں کارکردگی کا مظاہرہ کیا اور دسویں جماعت میں سندھ بھر میں پہلی پوزیشن لی۔ بعد میں گریجویشن اور پھر ممبئی یونیورسٹی سے فارسی میں امتیاز حاصل کیا۔ 23 سال کی عمر میں ان کی شادی ہوگئی۔
حیدر بخش جتوئی نے محکمۂ ریونیو میں ہیڈ منشی کی حیثیت سے ملازمت کا آغاز کیا لیکن اس دور میں سیاسی تحریکوں اور سماجی تغیرات نے انھیں ایک انقلابی کے طور پر ابھرنے کا موقع دیا اور وہ عوام، خاص طور پر ہاریوں کے حقوق کی جنگ لڑنے کے لیے سرکاری ملازمت سے الگ ہوکر ہاری تحریک کا حصّہ بن گئے۔ انھیں کامریڈ پکارا جانے لگا تھا، 1950 میں ہاری کونسل نے انہی کا مرتب کردہ آئین منظور کیا تھا جس کے بعد حیدر بخش جتوئی اور ساتھیوں کی جدوجہد رنگ لائی اور قانونِ زراعت منظور ہوا۔ وہ ہاریوں کے حق میں آواز اٹھانے کی پاداش میں جیل بھی گئے۔ حیدر بخش جتوئی عوام اور پسے ہوئے طبقے کے حق میں اپنی جدوجہد کی وجہ سے لوگوں میں مقبول ہوئے اور سندھ میں انھیں عوام اپنا حقیقی مسیحا اور راہبر مانتے تھے۔
حیدر بخش جتوئی نے اپنے سیاسی سفر کا آغاز انڈین نیشنل کانگریس، تھیوسوفیکل سوسائٹی اور کمیونسٹ پارٹی، ہندوستان کے ایک رُکن کی حیثیت سے کیا۔ وہ کمیونسٹ پارٹی کے وفادار رکن تھے، لیکن ہمیشہ روادارانہ، آزاد خیال اور وسیع فہم و فکر کا مظاہرہ سیاسی پالیسیوں اور مذہبی فلسفیانہ سوچ کے تحت کیا۔
ہندوستان کی جدوجہدِ آزادی پر ان کی ایک نظم کو شاہکار تخلیق کہا جاتا ہے۔ حیدر بخش جتوئی نے اپنی سندھی شاعری کا مجموعہ’’ تحفۂ سندھ‘‘ کے نام سے شائع کروایا تھا۔ جو صرف 65 صفحات کا ہے اور اس مجموعے میں نظم’’ دریا شاہ‘‘ اور’’شکوہ‘‘ بھی شامل ہیں، جن کا انگریزی میں بھی ترجمہ ہوا۔ 1946ء میں انھوں نے اپنی شاعری کا دوسرا مجموعہ ’’آزادیٔ قوم‘‘ شائع کروایا۔ یہ طویل نظم’’مخمّس‘‘ یعنی پانچ بندوں پر مشتمل ہے اور اس کا موضوع، برصغیر میں برطانوی راج کے خلاف جدوجہد ہے۔ انھوں نے کئی مشاعروں میں بھی شرکت کی، جن میں پاک و ہند اردو مشاعرہ بھی شامل ہے، جس میں حیدر بخش جتوئی نے سندھی نظم پڑھی تھی۔
کامریڈ حیدر بخش جتوئی ایک زود نویس مصنّف تھے۔ انھوں نے ون یونٹ کے خلاف کئی کتابچے لکھے۔ حیدر بخش جتوئی نے سندھی زبان میں دیگر کتابیں بھی تصنیف کیں۔
حیدر بخش جتوئی 21 مئی 1970 کو وفات پاگئے تھے۔
آپ کا ردعمل کیا ہے؟