تحریکِ آزادی: وہ شخصیت جن سے قائدِ اعظم اور علّامہ اقبال نے تین گھنٹے مشاورت کی
برطانوی ہندوستان میں تحریکِ خلافت کے پلیٹ فارم سے اپنا سیاسی سفر شروع کرنے والے علّامہ راغب احسن نے ابتداً تحریکِ آزادیٔ ہند اور بعدازاں تحریکِ پاکستان میں اہم کردار ادا کیا اور جیل بھی کاٹی۔ قیامِ پاکستان کے لیے محمد علی جناح کی قیادت میں اپنا کردار ادا کرنے والے راغب احسن کا تعلق […]
برطانوی ہندوستان میں تحریکِ خلافت کے پلیٹ فارم سے اپنا سیاسی سفر شروع کرنے والے علّامہ راغب احسن نے ابتداً تحریکِ آزادیٔ ہند اور بعدازاں تحریکِ پاکستان میں اہم کردار ادا کیا اور جیل بھی کاٹی۔
قیامِ پاکستان کے لیے محمد علی جناح کی قیادت میں اپنا کردار ادا کرنے والے راغب احسن کا تعلق صوبہ بہار سے تھا۔ وہ ایک غریب گھرانے کے فرد تھے۔ انھوں نے 1905ء میں آنکھ کھولی۔ راغب احسن کے والد کلکتہ میں محکمۂ ڈاک میں معمولی نوکر تھے۔ راغب احسن نے کلکتہ میں تعلیم پائی۔ اس وقت کے سیاسی حالات اور تبدیلیوں نے ہر مسلمان نوجوان کی طرح انھیں بھی متاثر کیا۔ وہ تحریک خلافت سے وابستہ ہوگئے اور اس کی کمیٹی میں شمولیت کے بعد جب گرفتار ہوئے تو یہ گرفتاری ان کی زندگی میں ایک تبدیلی لائی۔ ان کی ملاقات کلکتہ کارپوریشن کے اس وقت کے میئر محمد عثمان سے ہوئی اور وہاں ان دونوں نے یہ عزم کیا کہ اعلیٰ تعلیم حاصل کرکے انگریز سرکار سے نوکری نہیں لیں گے بلکہ اس کے خلاف علمِ بغاوت بلند کریں گے۔ رہائی کے بعد انھوں نے ایسا ہی کیا۔ علامہ راغب احسن نے ایم اے کی ڈگری لی اور صحافت کے میدان میں اتر گئے۔ انھیں اس میدان میں اپنے زمانے کی قابل و باصلاحیت شخصیات اور نادرِ روزگار ہستیوں کی صحبت میں بہت کچھ سیکھنے کو ملا۔ ان کے افکار اور نظریات نکھر گئے اور قلم میں خوب روانی پیدا ہوئی۔ علّامہ راغب ” اسٹار آف انڈیا ” سے منسلک ہوئے اور پھر مولانا محمد علی جوہر کے اخبار ” کامریڈ ” کے اعزازی مدیر بنے۔ مولانا محمد علی جوہر کی صحبت کا راغب احسن پر بڑا اثر پڑا۔ انھوں نے لکھنا شروع کیا اور اپنی منفرد شناخت بنائی۔ یہاں تک کہ محمد علی جوہر کی وفات کے بعد راغب احسن کو صحافت کی دنیا میں محمد علی ثانی کہا جانے لگا۔
علّامہ راغب احسن نے 1931ء میں ” آل انڈیا یوتھ لیگ ” کی بنیاد رکھی اور اسی دوران ” میثاق فکر اسلامیت و استقلالِ ملّت ” کے نام سے ایک فکر انگیز دستاویز مسلمانوں کے حقوق کے لیے مرتب کی۔ 1936ء میں راغب احسن نے کلکتہ میں مسلم لیگ کا دفتر کھولا اور نہایت سرگرمی سے تنظیم سازی شروع کی۔
ہندوستان کی تاریخ میں سب سے زیادہ جو مسئلہ ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان متنازع فیہ تسلیم کیا گیا وہ طرزِ انتخاب تھا۔ ہندوستان کے بڑے بڑے مسلم راہ نما مثلاً حکیم اجمل خاں، سر علی امام، حسن امام ، بیرسٹر مظہر الحق، محمد علی جناح، حسرت موہانی، ڈاکٹر انصاری، مولانا ظفر علی خان، چودھری خلیق الزماں، مولانا شوکت علی اور مولانا محمد علی جوہر وغیرہم متحدہ طرزِ انتخاب کو ہندوستان کے سیاسی نظام کے لیے بہتر سمجھتے تھے جب کہ مسلم کانفرنس کے اراکین و عہدے داران ہمیشہ جداگانہ طرزِ انتخاب کے حامی رہے۔ ان میں محمد شفیع، علامہ محمد اقبال کے ساتھ علّامہ راغب احسن بھی شامل ہیں۔
اسی جداگانہ طرزِ انتخاب پر علّامہ راغب احسن کی کئی تحاریر اور وقیع مضامین سامنے آئے جن کا مقصد اس حوالے سے اپنے مؤقف پر عوام میں شعور اجاگر کرنا اور آگاہی دینا تھا۔
علّامہ راغب احسن کا نام و مقام اور ان کے تحریکِ آزادی میں کردار کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ جب قائد اعظم محمد علی جناح 1935ء میں برطانیہ سے ہندوستان تشریف لائے تو دلّی میں تین اہم شخصیات نے گھنٹوں ایک کمرے میں بیٹھ کر وطن اور مسلمانوں کے حالات اور مستقبل پر بات چیت کی۔ یہ تین شخصیات محمد علی جناح، علامہ محمد اقبال اور راغب احسن تھے۔
آپ کا ردعمل کیا ہے؟