بیوہ خاتون کی دوبارہ شادی میں رکاوٹ کیوں؟ علماء کرام کی وضاحت
ہمارے معاشرے میں خواتین کے بیوہ یا مطلقہ ہوجانے پر ان کے ساتھ نہایت نامناسب سلوک کیا جاتا ہے اور ان کی دوبارہ شادی کو معیوب سمجھنا عام سی بات ہے۔ دور جاہلیت کی طرح اب جدید دور میں بھی بیوہ و مطلقہ خواتین کو ذہنی طور پر پریشان کیا جاتا ہے۔ ان کے ساتھ […]
ہمارے معاشرے میں خواتین کے بیوہ یا مطلقہ ہوجانے پر ان کے ساتھ نہایت نامناسب سلوک کیا جاتا ہے اور ان کی دوبارہ شادی کو معیوب سمجھنا عام سی بات ہے۔
دور جاہلیت کی طرح اب جدید دور میں بھی بیوہ و مطلقہ خواتین کو ذہنی طور پر پریشان کیا جاتا ہے۔ ان کے ساتھ بدسلوکی، دھوکہ دہی اور نفرت کا چلن عام ہے۔ کسی خاتون کا شوہر مرجائے یا اسے طلاق ہوجائے دونوں صورتیں عورت کے لیے کسی قیامت سے کم نہیں ہوتیں۔
اسلام ایسی خواتین کو کیا حقوق دیتا ہے اور اس کی شرعی حیثیت کیا ہے؟ اسے حوالے سے اے آر وائی ڈیجیٹل کے پروگرام شان افطار کے سیگمنٹ عالِم اور عالَم میں علماء کرام مفتی اکمل قادری اور علامہ محمد رضا داؤدانی نے تفصیلی روشنی ڈالی اور سوالات کے جواب دیے۔
علامہ محمد رضا داؤدانی نے کہا کہ اسلام اس بات کی حوصلہ افزائی کرتا ہے کہ کوئی بھی شخص (مرد و عورت) جو بلوغت کی عمر کو پہنچ گیا ہو اور شادی کے قابل ہو تنہا زندگی نہ گزارے۔
انہوں نے ایک حدیث کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ نبی کریم ﷺ نے حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے ارشاد فرمایا کہ اے علی (کرم اللہ وجہہ) تین موقعوں پر جلدی کرنی چاہیے پہلا جب اذان دی جائے تو نماز کیلئے، میت کی نماز جنازہ اور تدفین کیلئے اور تیسرا اگر کسی خاتون کیلئے مناسب رشتہ آجائے تو جلد سے جلد شادی کردینی چاہیے۔
مفتی اکمل قادری نے کہا کہ ہم لوگ بحیثیت مسلمان اپنی تاریخ اور زمانہ نبوی ﷺ سے ناواقف ہیں، اُس زمانے میں عام بات تھی کہ کوئی بھی بیوہ یا غیر شادی شدہ خاتون خود نکاح کا پیغام بھیجا کرتی تھی اور کوئی کسی پر طعنہ زنی بھی نہیں کرتا تھا۔
انہوں نے کہا کہ اگر کسی کی بیوی یا شوہر مرجاتا ہے کہ اس کے بچے بھی کسی لالچ کے تحت اپنے والد یا والدہ کی دوبارہ شادی نہیں کراتے حالانکہ یہ ان کا قانونی شرعی حق ہے۔
آپ کا ردعمل کیا ہے؟