ہیریسن اوکینی : وہ شخص جو سمندر کی تہہ میں 3 دن تک زندہ رہا
گہرے سمندر کی تہہ میں زندگی اور موت کی جنگ لڑنے کے واقعات تو اکثر سننے میں آّتے ہیں ایسے واقعات انسانی ہمت اور آخری وقت تک جدوجہد کرنے والے لوگوں کی طاقت کی عکاسی کرتے ہیں۔ آج یہاں ہم آپ کیلئے ایک ایسے ہی شخص کی داستان لے کر آئے ہیں کہ جس نے […]
گہرے سمندر کی تہہ میں زندگی اور موت کی جنگ لڑنے کے واقعات تو اکثر سننے میں آّتے ہیں ایسے واقعات انسانی ہمت اور آخری وقت تک جدوجہد کرنے والے لوگوں کی طاقت کی عکاسی کرتے ہیں۔
آج یہاں ہم آپ کیلئے ایک ایسے ہی شخص کی داستان لے کر آئے ہیں کہ جس نے سمندر کی تہہ میں 72 گھنٹے یعنی پورے تین دن زندگی اور موت کی کشمکش میں گزارے اور بالآخر زندگی بچانے میں کامیاب رہا۔
یہ کہانی دنیا کے سب سے بڑے سمندر بحر اوقیانوس کی ہے جہاں ایک شخص نے سمندر کی تہہ میں 72 گھنٹے گزارے، لیکن ہمت نہیں ہاری۔
تقریباً 11 سال قبل 26مئی 2013 کو بحر اوقیانوس کی گہرائیوں میں ایک حیرت انگیز کہانی رقم ہوئی جس نے پوری دنیا کو حیرت زدہ کردیا۔
ہیریسن اوکینی نامی شخص جو کہ ایک 29 سالہ نائجیریائی باورچی تھے نے تمام مشکلات کا سامنا کرتے ہوئے 72 گھنٹے ایک ڈوبے ہوئے جہاز میں زندہ رہ کر سب کو انگشت بدنداں کر دیا۔ اس انسان کی یہ کہانی انسانی برداشت اور زندہ رہنے کی قوت کا ایک عظیم مظہر ہے۔
حادثہ کیسے پیش آیا ؟
اوکینی ’جیکسن فور‘ نامی ایک ٹگ بوٹ پر اپنی ڈیوٹی پر موجود تھے جو گلف آف گنی میں ایک ٹینکر کو کھینچ رہی تھی، خراب موسم کی وجہ سے ایک بہت اونچی اور خطرناک لہر اس جہاز کے اوپر سے گزری جس نے جہاز کا توازن خراب کردیا اور وہ ڈوب گیا۔
لہر اتنی تیز تھی کہ ’جیکسن فور‘ کا عملہ اس پر قابو پانے میں ناکام رہا اور جلد ہی سمندر میں غرق ہوگیا اور عملے کے 11اراکین کو اپنے ساتھ لے گیا۔ ٹگ بوٹ پر اوکینی واحد ملازم تھے جو زندہ بچنے میں کامیاب ہوئے وہ اس وقت انجینئر کے کیبن میں پھنس گئے تھے۔
تین دن کا خوفناک انتظار
ایسی صورتحال میں اوکینی کے پاس نہ تو کوئی کھانے پینے کا سامان تھا اور نہ ہی کسی سے کوئی رابطہ کرنے کی امید۔ کیبن میں موجود ہوا کا بلبلہ عارضی طور پر انہیں زندہ رہنے کا موقع فراہم کرتا رہا، لیکن اندھیرا، سردی اور تنہائی نے ان کی برداشت کا امتحان لیا، وہ امید اور ناامیدی کے درمیان زندگی بچانے کے انتظار میں وقت گزارتے رہے۔
امید کی کرن
واقعے کے تیسرے روز اوکینی نے باہر کچھ غوطہ خوروں کی آواز سنی جو جنوبی افریقہ کی امدادی ٹیم کے اہلکار تھے ان اہلکاروں نے ہی اس ڈوبے ہوئے جہاز کے ملبے کو ڈھونڈ نکالا۔
امدادی ٹیم کے سربراہ وان نیکرک نے بتایا کہ اوکینی کی چیخوں سے غوطہ خوروں کو ان تک پہنچنے میں مدد ملی، جب میں نے ہیریسن کو دیکھا تو محسوس ہوا کہ یہ بہت تھکا ہوا تھا لیکن اس کی آنکھوں میں امید کی چمک تھی۔
تازہ ہوا کا پہلا سانس
بعد ازاں غوطہ خوروں نے اوکینی کو احتیاط سے ایک لوہے کے کیبن سے آزاد کرکے سمندر سے باہر نکالا اور 72 گھنٹے بعد اوکینی نے تازہ ہوا کا پہلا سانس لیا۔
اوکیسی کی زندگی بچنے کے اس واقعے نے دنیا بھر میں توجہ حاصل کی، اوکینی نے بھی اس حوالے سے لکھی گئی اپنی کہانی "62 Hours Underwater: The True Story of Survival” نامی کتاب میں واقعے کی مکمل تفصیل بیان کی ہے۔
ہیریسن اوکینی کی یہ دوسری زندگی انسانی برداشت کی ایک زندہ مثال ہے، اس کہانی سے ہمیں مشکلات کا سامنا جرات اور حوصلے کے ساتھ کرنے کی تحریک کا پتہ ملتا ہے۔
اوکینی کا تجربہ ہمیں یاد دلاتا ہے کہ حالات چاہے کتنے ہی سنگین کیوں نہ ہوں، امید اور استقامت زندگی میں دوسرا موقع فراہم کرسکتی ہیں۔
آپ کا ردعمل کیا ہے؟