کشمیر اور برٹرینڈ رسل کا احساسِ نامرادی
نوبیل انعام یافتہ فلسفی برٹرینڈ رسل نے دنیا کو تدبّر اور فہم و فراست کا درس دیتے ہوئے کئی خرد افروز مضامین یادگار چھوڑے ہیں جنھیں بہت سراہا گیا۔ برٹرینڈ رسل کشمیری عوام کے حقِ خود ارادیت کا بھی زبردست حامی تھا۔ اس نے پنڈت نہرو کے کشمیر کے مسئلے پر دھاندلی کے مؤقف کی […]
نوبیل انعام یافتہ فلسفی برٹرینڈ رسل نے دنیا کو تدبّر اور فہم و فراست کا درس دیتے ہوئے کئی خرد افروز مضامین یادگار چھوڑے ہیں جنھیں بہت سراہا گیا۔
برٹرینڈ رسل کشمیری عوام کے حقِ خود ارادیت کا بھی زبردست حامی تھا۔ اس نے پنڈت نہرو کے کشمیر کے مسئلے پر دھاندلی کے مؤقف کی مذمت کی اور وہ بارہا بھارت کے سامراجی عزائم کے خلاف بولا۔
اس نے کہا، ’’بھارتی حکومت بین الاقوامی معاملات میں بلند نظری کی پرچارک ہے لیکن جب میں دیکھتا ہوں کہ اپنی اس بلند نظری کو بھارت نے کشمیر کے معاملے میں خاک میں ملا دیا ہے تو دل پر ایک احساس نامرادی چھا جاتا ہے۔‘‘ 1965ء کی پاک بھارت جنگ میں اس نے بھارتی حملے کو ’’ننگی جارحیت‘‘ قرار دیا۔ رسل کو پاکستان اور اس وقت کے وزیر خارجہ ذوالفقار علی بھٹوسے بھی محبت تھی۔ اس نے پاکستان کی خارجہ پالیسی کو سراہتے ہوئے کہا:’’میں عرصے سے حکومتِ پاکستان کی پالیسی کو قدر کی نگاہ سے دیکھ رہا ہوں، کیونکہ یہ ایک آزاد پالیسی ہے۔‘‘
1965ء کے بعد ویت نام کا مسئلہ رسل کی توجہ کا مرکز بنا۔ یہ معاملہ سیاہ رخ امریکہ کی درندگی اور بربریت کی شرمناک مثال ہے۔ چورانوے سالہ زرد رو بوڑھا فلسفی اپنے وطن سے ہزاروں میل دور اس ظلم و تشدد کے خلاف آہنی دیوار بن کر ڈٹ گیا۔ اس نے ویت نام کے قومی محاذ آزادی کے ریڈیو سے ویت نام میں لڑنے والے امریکی فوجیوں سے مخاطب ہو کر کہا: ’’اگر یہ سب کچھ امریکہ میں آپ کے والدین، بیویوں اور بچوں کے ساتھ ہوتا، تو آپ کیا محسوس کرتے؟ میں یہ سوال اس لیے پوچھتا ہوں کیونکہ اس کی ذمہ داری آپ پر ہے، اس بات کا فیصلہ بھی آپ نے کرنا ہے کہ یہ مجرمانہ جنگ جاری رہے گی یا نہیں۔‘‘
ویت نام کی جنگ میں ’’مہذب‘‘ برطانیہ، امریکہ کا حواری رہا تھا۔ اس صورتِ حال میں رسل جو لیبر پارٹی کا ممتاز رکن تھا، یہ کہنے پر مجبور ہو گیا: ’’میں خود کو عہدِ حاضر کی سب سے زیادہ شرم ناک غداری کا مرتکب پاتا ہوں۔ ہٹلر کم از کم انسانیت کا دعویٰ تو نہیں کرتا تھا، لیکن یہ لوگ جو حکومت کی کرسیوں کو ناپاک کر رہے ہیں، انتخابات سے پہلے انسانیت کے اعلیٰ ترین نظریات کا پرچار کرتے تھے۔‘‘
اس تقریر کے فوراً بعد اس نے لیبر پارٹی کی رکنیت کا کارڈ پھاڑ دیا۔ بعد ازاں اس نے ویت نام میں جنگی جرائم کی تفتیش اور جنگی مجرموں کو انسانی ضمیر کے روبرو پیش کرنے کی خاطر دنیا بھر کے ممتاز دانشوروں اور قانون دانوں پر مشتمل ایک ٹریبونل قائم کیا۔ جس میں پاکستان کے قانون دان محمود علی قصوری، فرانسیسی فلسفی سارتر، فرانسیسی دانشور سمون دی بوار کے علاوہ امریکہ، جاپان اور فرانس کے جنگ دشمن تحریک کے علم بردار شامل تھے۔ ٹریبونل کی باقاعدہ کارروائی کا آغاز2 مئی 1967ء کو اسٹاک ہوم میں ہوا۔ رسل خرابی صحت کی وجہ سے شرکت نہ کر سکا اور سارتر نے اس اجلاس کی صدارت کی۔ ٹریبونل نے حاصل شدہ شہادتوں کی بنا پر 10 مئی 1967ء کو امریکہ اور اس کے اتحادی آسٹریلیا، نیوزی لینڈ، جنوبی کوریا کو مجرم قرار دیا اور اس وقت کے امریکی صدر جانسن اور جنرل مورلینڈ کو ’’سزائے موت‘‘ کا حکم سنایا۔ بلاشبہ ان قومی مجرموں کو جسمانی طور پر سزا دینا ممکن نہ تھا۔ تاہم ایسی گہری ملامت انصاف پسند عالمی ضمیر کی آوازیں بن کر ضرور گونجیں۔ آخری ایام میں وہ اسرائیل کے خلاف بھی ایسی ہی کارروائی کا ارادہ رکھتا تھا۔
رسل کی زندگی جنگ، ظلم ، ناانصافی اور ایٹمی ہتھیاروں کیخلاف جدوجہد میں بسر ہوئی۔اسے جولائی 1955ء میں تخفیفِ اسلحہ کے مسئلہ پر جنیوا سربراہ کانفرنس سے پر امن مستقبل کی کرن نظر آنے لگی تھی، لیکن جب روس نے ایٹمی ہتھیاروں پر بین الاقوامی کنٹرول کے بارے میں امریکی تجاویز مسترد کردیں تو بوڑھا امن پسند فلسفی مایوس ہوا۔
رسل جب تک زندہ رہا، ظلم کے خلاف سینہ سپر رہا۔ اٹھانوے برس کی عمر میں موت نے اس جری سپاہی کی تلوار اس سے چھین لی۔ 2 فروری 1970ء کو وہ انتقال کر گیا۔ 5 فروری کو اس کی وصیت کے مطابق اس کی نعش کو نذرِ آتش کیا گیا۔ اس موقع پر کوئی مذہبی تقریب نہیں ہوئی۔ کسی شخص نے کوئی لفظ نہیں کہا اور نہ ہی موسیقی کی دھنیں بجائی گئیں۔ آخری رسوم کی ادائیگی کے وقت اس کی بیوی اور ایک بیٹے کے علاوہ کوئی درجن بھر سوگوار موجود تھے۔
(ظفر سپل فلسفی، ادیب اور متعدد کتب کے مصنف ہیں، یہ اقتباس ان کی کتاب ’’فلسفۂ مغرب‘‘ سے لیا گیا ہے)
آپ کا ردعمل کیا ہے؟