کس ملک میں بندروں کو کھانا دینا جرم ہے؟
دنیا میں تفریحی مقامات پر بندروں کی بہتات ہوتی ہے جنہیں سیاح کھانا دیتے ہیں لیکن ایک ملک میں یہ کرنا جرم ہے۔ بندر ایسا جانور ہے جس کی کئی عادات انسانوں سے مشابہہ ہیں۔ وہ انسانوں سے جلد مانوس بھی ہوجاتا ہے۔ ان کا اصل مسکن تو جنگلات ہوتے ہیں لیکن اکثر تفریحی مقامات […]
دنیا میں تفریحی مقامات پر بندروں کی بہتات ہوتی ہے جنہیں سیاح کھانا دیتے ہیں لیکن ایک ملک میں یہ کرنا جرم ہے۔
بندر ایسا جانور ہے جس کی کئی عادات انسانوں سے مشابہہ ہیں۔ وہ انسانوں سے جلد مانوس بھی ہوجاتا ہے۔ ان کا اصل مسکن تو جنگلات ہوتے ہیں لیکن اکثر تفریحی مقامات پر بھی یہ نظر آتے ہیں جنہیں سیاح دیکھ کر محظوظ ہوتے اور انہیں کھانا بھی دیتے ہیں۔
تاہم ایک ملک ایسا بھی ہے جہاں اس جانور کو کھانا دینا جرم ہے اور یہ حرکت جیب پر بہت بھاری پڑ سکتی ہے۔
وہ ملک سعودی عرب ہے، جہاں بندورں کو کھانے پینے کی چیزیں دینا جرم ہے جس کی خلاف ورزی پر بھاری جرمانہ عائد کیا گیا ہے۔
سبق نیوز کے مطابق قومی مرکز برائے جنگلی حیات نے خبردار کیا ہے کہ بندروں کو کھانے کی چیزیں دینا تحفظ ماحولیات قانون کی خلاف ورزی ہے، جس پر 500 ریال جرمانہ مقرر ہے۔
قومی مرکز کا کہنا ہے کہ طائف اور دیگر مقامات پر پائے جانے والے جنگلی جانور، جن میں بابون (مخصوص بندروں کی نسل) کافی زیادہ ہوتے ہیں۔ ان کو فطری طریقے سے ہی خوراک حاصل کرنے دی جائے کیونکہ انسانوں کی جانب سے انہیں کھانے کی اشیا دینے سے ان کی فطری صلاحیت متاثر ہوتی ہے۔
مرکز کے مطابق یہ طریقہ نہ صرف بندروں کے لیے نقصان دہ ہے بلکہ انواع و اقسام کی خوراک کے عادی ہونے کے بعد وہ اس کےحصول کے لیے شہری علاقوں کا بھی رخ کرتے ہیں اور لوگوں کی تکلیف کا باعث بھی بنتے ہیں۔
واضح رہے کہ تحفظ جنگلی حیات کے مرکز نے مکہ مکرمہ ، مدینہ منورہ ، الباحہ ، عسیر ، جازان اور نجران کے علاقوں میں پائے جانے ولے بابونوں کے تحفظ کےلیے انتظامات کیے ہیں اس حوالےسے جن مقامات پر یہ بندر پائے جاتے ہیں وہاں آہنی باڑ لگا دی گئی ہے، تاکہ لوگ اس علاقے سے دور رہیں۔
آپ کا ردعمل کیا ہے؟