چکن گونیا 118 ملکوں تک پھیل گیا، عالمی ادارہ صحت
عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کا کہنا ہے کہ چکن گونیا 118 ممالک تک پھیل گیا ہے۔ دنیا بھر میں ڈینگی اور چکن گونیا کے مریضوں میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے، ڈبلیو ایچ او کے مطابق چکن گونیا دنیا کے 118 ملکوں تک پھیل گیا ہے اور کئی ممالک میں یہ وبائی صورت […]
عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کا کہنا ہے کہ چکن گونیا 118 ممالک تک پھیل گیا ہے۔
دنیا بھر میں ڈینگی اور چکن گونیا کے مریضوں میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے، ڈبلیو ایچ او کے مطابق چکن گونیا دنیا کے 118 ملکوں تک پھیل گیا ہے اور کئی ممالک میں یہ وبائی صورت اختیار کرگیا ہے۔
ڈبلیو ایچ او کے مطابق ڈینگی کیسز بھی ایک کروڑ 23 لاکھ تک جاپہنچے ہیں۔
عالمی ادارہ صحت کا کہنا ہے کہ وبا کے پھیلاؤ کے باعث ڈبلیو ایچ او نے ان بیماریوں سے نمٹنے کے لیے پروگرام کا آغاز کردیا ہے۔
واضح رہے کہ پاکستان میں بھی ایک ماہ کے دوران ڈینگی، چکن گونیا اور ملیریا کے مریضوں کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔
چکن گونیا کیا ہے؟
چکن گونیا ایک ایسا وائرس ہے جو مچھروں کے ذریعے پھیلتا ہے اور ایک سے دوسرے فرد میں منتقل نہیں ہوسکتا۔
چکن گونیا سے متاثر مریضوں کی ہلاکت کا امکان نہ ہونے کے برابر ہوتا ہے مگر اس کی علامات کی شدت زیادہ ہوسکتی ہے جبکہ طویل المعیاد بنیادوں پر مختلف منفی اثرات کا سامنا بھی ہوسکتا ہے۔
علامات
مچھر کے کاٹنے کے بعد اس بیماری کی علامات 3 سے 7 دن کے دوران نظر آتی ہیں۔
یہ علامات مچھروں سے پھیلنے والی دیگر بیماریوں جیسے ڈینگی بخار سے ملتی جلتی ہوتی ہیں۔
بخار، جوڑوں میں تکلیف، سردرد، مسلز میں درد، خارش اور جوڑوں کے ارگرد سوجن وغیرہ چکن گونیا کی عام ترین علامات ہیں۔
مگر خسرہ جیسے دانے، قے اور متلی بھی اس کی ایسی علامات ہیں جن کا سامنا کم افراد کو ہوتا ہے۔
تشخیص
درحقیقت ڈینگی یا دیگر امراض سے ملتی جلتی علامات کے باعث چکن گونیا کی تشخیص صرف خون کے ٹیسٹ ہی ممکن ہوتی ہے۔
چونکہ ڈینگی بخار زیادہ جان لیوا مرض ہے جس کا علاج نہ ہو تو موت کا خطرہ 50 فیصد تک بڑھ جاتا ہے تو اس موسم میں بخار ہونے پر بلڈ ٹیسٹ کرانا ضروری ہے جب مچھروں کی تعداد زیادہ ہوتی ہے۔
علاج
اس وائرس سے اموات کی شرح محض 0.1 فیصد ہے مگر علامات بہت تکلیف دہ ثابت ہوسکتی ہیں۔
بیشتر مریضوں کا بخار ایک ہفتے میں ٹھیک ہوجاتا ہے مگر جوڑوں میں تکلیف کا تسلسل کئی ماہ بلکہ ایک سال تک برقرار رہ سکتا ہے۔
چکن گونیا کے علاج کے لیے کوئی مخصوص دوا موجود نہیں، اس لیے ڈاکٹروں کی جانب سے آرام اور زیادہ پانی پینے کا مشورہ دیا جاتا ہے۔
البتہ بخار اور جوڑوں کی تکلیف میں کمی کے لیے ڈاکٹر مختلف ادویات تجویز کرسکتے ہیں۔
آپ کا ردعمل کیا ہے؟