مشفق خواجہ کا ‘سنجیدہ’ کالم
مشفق خواجہ صرف ادبی کالم لکھا کرتے تھے، جن لوگوں نے پڑھے ہیں۔ وہی جانتے ہیں کہ وہ کیسے کالم لکھنے والے تھے۔ شاید ہزار برس تک ایسا کالم نگار پیدا نہ ہو۔ ایک دن انھی مشفق خواجہ سے میں نے پوچھا ”آپ نے طنز و مزاح میں تو جو کالم لکھے ہیں، سو لکھے […]
مشفق خواجہ صرف ادبی کالم لکھا کرتے تھے، جن لوگوں نے پڑھے ہیں۔ وہی جانتے ہیں کہ وہ کیسے کالم لکھنے والے تھے۔ شاید ہزار برس تک ایسا کالم نگار پیدا نہ ہو۔
ایک دن انھی مشفق خواجہ سے میں نے پوچھا ”آپ نے طنز و مزاح میں تو جو کالم لکھے ہیں، سو لکھے ہیں، آپ نے کبھی کوئی سنجیدہ کالم بھی لکھا ہے؟“
مشفق خواجہ نے جو کچھ میرے سوال کے جواب میں کہا اس نے مجھے حیرت میں ڈال دیا، کیوں کہ ابھی کچھ ہی دیر پہلے وہ کہہ رہے تھے۔ انہیں مجموع کرنے اور بھیڑ جمع کرنے والے لوگ کبھی اچھے نہیں لگتے اور کہہ رہے تھے میں نے جو واحد سنجیدہ کالم لکھا ہے، وہ سلیم احمد کے بارے میں لکھا ہے، جب وہ وفات پا گئے۔ یہ تھے سلیم احمد، منہ چڑھا کر مشفق خواجہ ایسے شخص سے اپنے بارے میں وہ کالم لکھوا لیا، جو پھر کبھی انھوں نے نہیں لکھا۔ خود اپنے بارے میں وہ لکھ ہی نہیں سکتے تھے۔ کالم لکھنا کجا۔ وہ اپنے بارے میں کچھ پڑھنا بھی پسند نہیں کرتے تھے۔ سب عجیب ہی تھے۔ ان دنوں میں سلیم احمد کے کالم پڑھ رہا تھا۔ وہ کالم جو بعنوان ”جھلکیاں“ روزنامہ حریت کراچی میں لکھا کرتے تھے۔ ان میں تین طرح کے کمال ہوا کرتے تھے۔ اوّل کالم کا مستقل عنوان ”جھلکیاں“ ہوا کرتا تھا۔ مگر اس کے ساتھ کوئی اور شہ سرخی یا عنوان نہیں ہوا کرتا تھا۔ جیسا کہ معروف کالم نگاروں کے کالم میں ہوتا ہے۔ بس اوپر ”جھلکیاں“ لکھا ہے۔ اب آپ کی مرضی ہے پڑھ ڈالیں یا نہ پڑھیں۔ دوسرے کالم ہمیشہ ایک کالم میں اوپر سے نیچے تک لکھا کرتے تھے۔ تیسرے کا ذکر کرتے ہوئے دل خون کے آنسو روتا ہے۔ سلیم احمد، حریت میں ایک محدود سرکولیشن کے حامل اخبار میں صرف اس لئے لکھا کرتے تھے کہ انھیں وہاں سے پیسے ملا کرتے تھے۔ اس وقت ’حریت‘ کا دامن اس حوالے سے انتہائی کشادہ ہوا کرتا تھا کہ وہ اپنے ہر لکھنے والے کو معاوضہ دیا کرتا تھا۔ اور سلیم احمد کی مجبوری اور ہائے کیسی مجبوری تھی۔ اللہ اکبر کہ انہیں اپنا گھر چلانے اور بچوں کی تعلیم اور دال دلیے کی خاطر پیسے کی اور معاوضے کی بہرصورت ضرورت ہوا کرتی تھی اور اس بات نے ان کا وجود پارہ پارہ کر ڈالا تھا۔ وہ دنیائے ادب کا ایک بڑا نام تھے۔ اتنا سرو قد نام کہ مشفق خواجہ ایسے بااصول ادیب کو ان کی وفات پر پہلی بار ایک سنجیدہ کالم لکھنا پڑا۔ پھر کتنے ہی وقت کے عظیم شاعر لوگ گزرگئے۔ مگر انھوں نے کالم نہیں لکھا۔
(از قلم: فیاض اعوان)
آپ کا ردعمل کیا ہے؟