مجیب عالم: پاکستانی فلمی صنعت کا مقبول ترین گلوکار
60ء کی دہائی کے آخر میں گلوکار مجیب عالم کی آواز اور ان کے منفرد طرزِ گائیکی نے اُس وقت کے موسیقاروں اور سُر سنگیت کے دیوانوں کو بہت متاثر کیا اور ان کے گائے ہوئے گیتوں نے اس وقت کے متحدہ پاکستان میں مقبولیت کا ریکارڈ بنایا۔ لیکن مجیب عالم کا یہ سفر زیادہ […]
60ء کی دہائی کے آخر میں گلوکار مجیب عالم کی آواز اور ان کے منفرد طرزِ گائیکی نے اُس وقت کے موسیقاروں اور سُر سنگیت کے دیوانوں کو بہت متاثر کیا اور ان کے گائے ہوئے گیتوں نے اس وقت کے متحدہ پاکستان میں مقبولیت کا ریکارڈ بنایا۔ لیکن مجیب عالم کا یہ سفر زیادہ عرصہ جاری نہ رہ سکا اور نئے گلوکار انڈسٹری میں جگہ بنانے میں کام یاب ہوگئے۔
آج گلوکار مجیب عالم کی برسی ہے۔ وہ 2 جون 2004 کو انتقال کرگئے تھے۔ 1967ء میں فلم’ چکوری‘ کے نغمات سے مجیب عالم کی شہرت کا آغاز ہوا تھا اور اس دور میں ان کا گایا ہوا یہ گیت بہت مقبول تھا، ’وہ میرے سامنے تصویر بنے بیٹھے ہیں…‘ اس فلم کے بعد اگلے کئی برس تک مجیب عالم انڈسٹری کے مصروف گلوکاروں میں شامل رہے۔ لیکن اس مقبولیت کے باوجود وہ فلم انڈسٹری کی ضرورت نہیں بن سکے۔ کہا جاتا ہے کہ قسمت کی دیوی اخلاق احمد اور اے نیّر جیسے گلوکاروں پر مہربان ہوگئی جو اس زمانے میں فلم نگری میں متعارف ہوئے تھے اور مجیب عالم کو نظرانداز کیا جانے لگا۔
مجیب عالم نے فلمی دنیا کے لیے کئی یادگار گیت ریکارڈ کرائے اور ریڈیو اور ٹیلی ویژن سے اکثر ان کے نغمات نشر کیے جاتے تھے۔ ایک دور تھا جب سامعین کی پُر زور فرمائش پر گلوکار ریڈیو پر مجیب عالم کے ریکارڈ سنائے جاتے تھے۔ اسی طرح ٹیلی ویژن کے لیے گلوکار مجیب عالم نے خصوصی طور پر نغمات ریکارڈ کروائے اور ان پر خوب داد سمیٹی۔ پی ٹی وی کے لیے ان کا گیت ’میرا ہر گیت ہے ہنستے چہروں کے نام‘ بہت مقبول ہوا۔
جس زمانے میں مجیب عالم نے فلم انڈسٹری میں بطور گلوکار قدم رکھا، وہاں مہدی حسن اور احمد رشدی جیسے پائے کے گلوکار پہلے ہی موجود تھے، لیکن جلد ہی مجیب عالم پاکستان کے صفِ اوّل کے گلوکاروں میں شامل ہوگئے۔ ان کے مشہور گیتوں میں ’یوں کھو گئے تیرے پیار میں ہم‘، ’میں تیرے اجنبی شہر میں‘ اور ’یہ سماں پیار کا کارواں‘ سرفہرست ہیں۔
مجیب عالم ہندوستان کے شہر کانپور میں 1948ء میں پیدا ہوئے تھے۔ تقسیمِ ہند کے چند برس بعد ان کا خاندان ہجرت کرکے کراچی آگیا تھا جہاں وہ اپنی زندگی کی آخری سانس تک سکونت پذیر رہے۔ مجیب عالم کی آواز بے حد سریلی تھی اور وہ ریڈیو پر اپنے فن کا مظاہرہ کرچکے تھے۔ اسی سے متأثر ہوکر موسیقار حسن لطیف نے اپنی فلم نرگس کے گیت ان سے گوائے مگر یہ فلم پردے پر نمائش کے لیے پیش نہ کی جاسکی۔ تاہم ساٹھ کی دہائی میں مجیب عالم نے فلمی دنیا کو بطور گلوکار اپنا لیا تھا۔ ان کی ریلیز ہونے والی پہلی فلم مجبور تھی۔ مجیب عالم کی آواز میں 1966 میں فلم جلوہ کا گیت بھی ریکارڈ کیا گیا تھا۔ اس کے اگلے سال چکوری جیسی کام یاب فلم کا نغمہ ان کی آواز میں بے حد مقبول ہوا اور پھر وہ آگے بڑھتے چلے گئے۔ مجیب عالم کو اس گیت کے لیے نگار ایوارڈ دیا گیا۔ ان کے بارے میں اپنے وقت کے مایہ ناز موسیقاروں اور گلوکاروں کا کہنا تھاکہ ’مجیب مشکل گانے بھی آسانی اور روانی سے گایا کرتے تھے۔‘
مجیب عالم نے جن فلموں کے لیے نغمات ریکارڈ کروائے ان میں دل دیوانہ، گھر اپنا گھر، جانِ آرزو، ماں بیٹا، شمع اور پروانہ، قسم اس وقت کی، میں کہاں منزل کہاں سرفہرست ہیں۔ مجیب عالم کی گائیکی کا ایک وصف یہ تھا کہ وہ طربیہ اور المیہ دونوں قسم کے نغمات یکساں مہارت سے گاتے تھے۔
گلوکار مجیب عالم کراچی میں سخی حسن کے قبرستان میں سپرد خاک کیے گئے۔
آپ کا ردعمل کیا ہے؟