مائی بھاگی: لوک گائیکی کا ایک بڑا نام

آج کے دن مائی بھاگی اس دنیا سے رخصت ہوگئی تھیں۔ لوک گلوکارہ نے پاکستان ہی نہیں بیرونِ ملک بھی اپنے مخصوص انداز اور طرزِ گائیکی کے سبب لوگوں کو اپنا مداح بنا لیا تھا۔ بیسویں صدی کے اواخر میں آنکھ کھولنے والی ایک نسل کی سماعتوں میں‌ آج بھی یہ گیت تازہ ہے جس […]

 0  2
مائی بھاگی: لوک گائیکی کا ایک بڑا نام

آج کے دن مائی بھاگی اس دنیا سے رخصت ہوگئی تھیں۔ لوک گلوکارہ نے پاکستان ہی نہیں بیرونِ ملک بھی اپنے مخصوص انداز اور طرزِ گائیکی کے سبب لوگوں کو اپنا مداح بنا لیا تھا۔

بیسویں صدی کے اواخر میں آنکھ کھولنے والی ایک نسل کی سماعتوں میں‌ آج بھی یہ گیت تازہ ہے جس کے بول تھے، ’’کھڑی نیم کے نیچے…‘‘ بلکہ ہر اُس فرد نے یہ گیت سنا جو گیت کی بولی سے ناواقف تھا، وہ بھی مائی بھاگی کی آواز کے سحر میں‌ گرفتار ہوا۔ لوک گلوکارہ مائی بھاگی کی آواز کا لوچ، ترنم اور گیت کے بولوں کے مطابق مسرّت کی چہکار یا درد انگیزی ایسی ہوتی کہ سماعتیں اس کی دیوانی ہوجاتی تھیں۔ آج مائی بھاگی کی برسی ہے۔

مائی بھاگی نے صحرائے تھر کے شہر ڈیپلو میں لگ بھگ 1920ء میں آنکھ کھولی۔ والدین نے بھاگ بھری نام رکھا۔ ان کے والد اپنے شہر اور گرد و نواح میں شادی بیاہ، میلوں اور غم کی تقریبات میں‌ سہرے گاتے اور نوحے پڑھتے جو ان کی روزی روٹی کا وسیلہ تھا۔ انھوں نے اپنی بیٹی کو آٹھ دس سال کی عمر ہی سے اپنے ساتھ ان تقریبات میں لے جانا شروع کر دیا تھا۔جہاں وہ ڈھول بجا کر اپنے باپ کا ساتھ دیتیں‌۔ کچھ وقت گزرا تو مائی بھاگی نے گانا بھی شروع کردیا۔ لوک گیتوں کو گانے کی تربیت ان کے والد نے کی تھی۔

مائی بھاگی بڑی ہوئیں تو والدین کی اجازت سے اپنے گاؤں اور قریبی علاقوں میں‌ تقریبات اور خوشی و غم کے مواقع پر گانے کے لیے جانے لگیں۔ وہ اَن پڑھ اور شہری زندگی کے طور طریقوں سے ناواقف ضرور تھیں، لیکن خداداد صلاحیتوں کی مالک مائی بھاگی کو غربت، اور دیہی زندگی کے مسائل نے حالات کا مقابلہ کرنا اور اعتماد سے جینا ضرور سکھا دیا تھا۔

مائی بھاگی نے نہ صرف اپنی آواز اور اپنے فنِ گائیکی کے سبب ملک گیر شہرت حاصل کی بلکہ برصغیر میں‌ جہاں‌ جہاں‌ لوک موسیقی شوق سے سنی جاتی تھی، مائی بھاگی کا فن بھی وہاں‌ تک پہنچا اور انھیں‌ سراہا گیا۔ سادہ دل اور منکسرالمزاج مائی بھاگی نے لوگوں‌ کے دلوں میں‌ جگہ پائی۔ انھیں بہت عزّت اور احترام کی نظر سے دیکھا جاتا تھا۔ ان کی شادی ہوتھی فقیر سے اس وقت ہوئی جب مائی بھاگی کی عمر سولہ سال تھی۔ ہوتھی فقیر بھی تھرپارکر کے ضلع اسلام کوٹ سے تعلق رکھنے والے لوک فن کار تھے۔

مائی بھاگی اپنے گیتوں کی موسیقی اور دھنیں بھی خود مرتب کرتی تھیں۔ انھوں نے ڈھاٹکی، مارواڑی اور سندھی زبانوں میں گیت گائے۔ مائی بھاگی کو 1963 میں اس وقت بڑی کام یابی نصیب ہوئی جب وہ اپنے والد کے ساتھ ماروی کے میلے میں موجود تھیں جہاں‌ کئی قابلِ ذکر اور بڑی شخصیات نے ان کو سنا اور ان سے متأثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے۔ اس میلے میں ریڈیو پاکستان حیدرآباد مرکز سے وابستہ آرٹسٹ اور عملہ بھی موجود تھا جس نے مائی بھاگی کی آواز ریکارڈ کی اور بعد میں ریڈیو پر ان کا ٹیپ نشر کر دیا۔ یوں‌ مائی بھاگی کی شہرت ہر طرف پھیل گئی۔ ریڈیو کے سامعین مائی بھاگی کے گیت سننے کی فرمائش کرنے لگے اور تب 1966 میں اس لوک گلوکارہ سے رابطہ کرکے ان کی آواز میں چند گیت ریڈیو پاکستان کے لیے ریکارڈ کیے گئے اور بعد میں مائی بھاگی ٹیلی ویژن پر بھی نظر آئیں۔

صحرائے تھر کی اس گلوکارہ کو کراچی میں پی ٹی وی کے پروگرام میں‌ پہلی مرتبہ لوگوں نے دیکھا اور یوں ان کا سفر آگے بڑھتا رہا۔ مائی بھاگی نے ریڈیو اور ٹی وی کے لیے درجنوں گیت ریکارڈ کروائے اور ان کے انٹرویو بھی نشریات کا حصّہ بنے-

9 جولائی 1986 کو مائی بھاگی کو فریضۂ حج کی ادائیگی کے لیے حجازِ مقدس روانہ ہونا تھا، مگر دستِ اجل میں‌ ان کی موت کا جو پروانہ موجود تھا، اس پر تاریخ 7 جولائی تھی۔ مائی بھاگی حج کے لیے نہیں‌ جاسکیں اور سفرِ آخرت پر روانہ ہوگئیں۔ لوک گلوکارہ کو تمغائے حسنِ کارکردگی سے نوازا گیا تھا۔

آپ کا ردعمل کیا ہے؟

like

dislike

love

funny

angry

sad

wow