فنِ موسیقی: سات سُروں کی کہانی
راگ راگنیاں، لَے، تان یا سُر اور تال فنِ موسیقی کی وہ اصطلاحات ہیں جن سے موسیقی کا ہر ادنیٰ شائق واقف ہے، لیکن اس فن کی باریکیاں اور نزاکتیں موسیقار اور گلوکار ہی سمجھ سکتے ہیں۔ دنیا بھر میں زمانۂ قدیم ہی سے موسیقی کسی نہ کسی شکل میں اپنی جادو جگاتی رہی ہے، […]
راگ راگنیاں، لَے، تان یا سُر اور تال فنِ موسیقی کی وہ اصطلاحات ہیں جن سے موسیقی کا ہر ادنیٰ شائق واقف ہے، لیکن اس فن کی باریکیاں اور نزاکتیں موسیقار اور گلوکار ہی سمجھ سکتے ہیں۔ دنیا بھر میں زمانۂ قدیم ہی سے موسیقی کسی نہ کسی شکل میں اپنی جادو جگاتی رہی ہے، مگر قدیم دور کا طرزِ موسیقی، اور آلات، پھر کلاسیکی اور جدید دور کی موسیقی کو بھی سمجھنا عام آدمی کے لیے مشکل ہے۔
ہم برصغیر یا ہندوستان کی بات کریں تو آج نہ تو کلاسیکی، خالص راگ راگنیوں پر مشتمل موسیقی باقی رہی ہے اور نہ ہی وہ گلوکار جو فن و اصنافِ موسیقی پر قدرت رکھتے تھے۔ اسی طرح وہ بے مثال موسیقار رہے اور نہ ہی وہ سازندے جو اپنے فن اور مہارت میں یکتا تھے اور برصغیر پاک و ہند کے طول و عرض میں ان کا شہرہ تھا۔
آج موسیقی کا عالمی دن ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ کلاسیکی، نیم کلاسیکی اور لوک موسیقی نے دہائیوں کے دوران جدّت اور نئے ساز و آلات کے ساتھ اپنی شکل بھی بدلی ہے۔ آج اس فن کو نئی آوازوں کے ساتھ مختلف نئے پلیٹ فارم کی بدولت ایک جدید شناخت ملی ہے۔
موسیقی کی ابتدا کیسے ہوئی؟ اس بات کو سمجھنا ایک پیچیدہ اور مشکل امر ہے۔ شاید، اسی وقت جب انسان نے اپنی کسی چھوٹی سی کام یابی پر کوئی ایسی آواز منہ سے نکالی جس میں ترنگ تھی، اور وہ دوسروں کو بہت بھلی لگی۔ یا پھر اس نے کسی کھوکھلی شے، کسی خاص چیز کی سطح پر ہاتھ مارے اور ایسی آوازیں سنیں جس نے اسے نغمگی کا احساس دلایا ہو اور انہی کی بنیاد پر وہ ساز ایجاد کرنے میں کام یاب ہوا ہو۔ موسیقی کی عمر جانچنے کا تو کوئی پیمانہ نہیں البتہ ہزاروں سال کے آثارِ قدیمہ سے پتھر کے ایسے آلاتِ موسیقی ملے ہیں جن کے بارے میں خیال ہے کہ ان کی مدد سے لوگ اپنے غموں اور خوشیوں کا اظہار کرتے تھے۔ غاروں میں رہنے والے قدیم دور کے انسانوں نے مختلف جانوروں کی ہڈیوں اور سینگوں میں سوراخ کر کے اولین ساز ایجاد کیے تھے۔ ایسے کئی ساز مختلف قدیم تہذیبوں کی دریافت کے دوران ملے ہیں۔ یہ ایک طویل اور تحقیق طلب موضوع ہے، لیکن یہ طے ہے کہ موسیقی کا انسان گہرے اثرات مرتب ہوتے ہیں اور یہ مثبت اور منفی دونوں طرح کے ہوسکتے ہیں۔ موسیقی انسانی جسم پر کس قسم کے مثبت اور منفی اثرات مرتب کرتی ہے، سائنس کی روشنی میں اس کا جائزہ لینے کی کوششیں کی جاتی رہی ہیں۔ اس حوالے سے ایک تحقیقی مضمون میں راؤ شاہد اقبال نے لکھا تھا، فن لینڈ کے محققین نے جتنے سائنسی مطالعے موسیقی کے ‘نیک و بد اثرات’ جاننے کے بارے میں کیے ہیں بلاشبہ دنیا کے کسی اور ملک کے محققین اُس کا عشر عشیر بھی نہیں کرسکے۔ دراصل فن لینڈ کے سائنس دان انسانی دماغ پر موسیقی کے اثرات کو جاننے کے متعلق بہت زیادہ دل چسپی رکھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ گزشتہ کئی دہائیوں میں اُن کی جانب سے متعدد سائنسی مطالعات سامنے آچکے ہیں، جن میں یہ ثابت کیا گیا ہے کہ موسیقی کے ذریعے انسانی جذبات کو مؤثر انداز میں کنٹرول کیا جا سکتا ہے۔ اس حوالے فن لینڈ کے محققین کی جانب سے 2015 میں کیے جانے والے ایک مطالعہ کا دنیا بھر میں بہت چرچا ہوا تھا، جس میں بتایا گیا تھا کہ ”اچھی موسیقی انسان میں نظم و ضبط کا سبب بنتی ہے۔“ یاد رہے کہ اس تحقیق کے نتائج سامنے آنے کے بعد موسیقی کے ذریعے تھراپی کے منفرد کاروبار کو خوب رواج ملا اور کئی ممالک میں تو باقاعدہ موسیقی تھراپی کے لیے کلینک قائم کر دیے گئے۔
یومِ موسیقی منانے کا آغاز فرانس کے شہر پیرس سے ہوا تھا اور چند برسوں سے پاکستان میں بھی یہ دن منایا جارہا ہے۔ موسیقی کی روایت برصغیر میں بہت پرانی ہے اور برصغیر کی کلاسیکی موسیقی اور راگ کے ساتھ نیم کلاسیکی موسیقی سننے والے اگرچہ اب کم رہ گئے ہیں، لیکن یہاں نوجوان اب بھی غزل، گیت، لوک موسیقی شوق سے سنتے ہیں۔
برِصغیر میں موسیقی نے مغلیہ دور سے بہت پہلے عروج حاصل کر لیا تھا اور سیکڑوں کلاسیکی گائیک اس فن کے امین بنے۔ موسیقی کو سمجھنے کے لیے اس فن کی اصطلاحات کو سمجھنا ضروری ہے۔ موسیقی، جسے ایک فن کا درجہ حاصل ہے اس کی سب سے اہم اصطلاح سُر ہے۔ سُر کا ذکر تو آپ نے سنا ہی ہوگا جو تعداد میں سات ہیں۔ انھیں سات سُر بھی کہتے ہیں۔ سُروں کے مجموعے کو سرگم کہا جاتا ہے۔ اگر ان کو موسیقی کے حروفَ تہجی فرض کرلیا جائے تو ان کو ماہرین نے کھرج، رکھب، گندھار، مدھم، پنجم، دھیوت اور نکھا کے نام دیے ہیں اور یہ یونہی نہیں رکھ دیے گئے۔ یہ نام مختلف جانوروں کی آوازوں سے مشابہت کی بنیاد پر رکھے گئے ہیں جن سے خوشی، درد، غم، بے چینی اور غصے کے جذبات نمایاں ہوتے ہیں۔ ان حروف تہجی کو مختصرا سا، رے، گا، ما، پا، دھا اور نی کہا جاتا ہے۔ ماہرین کے مطابق کھرج کا ماخذ ناف، رکب کا دل، گندھار کا سینہ، مدھم کا حلق، پنجم کا منہ، دھیوت کا تالو اور نکھا کا ماخذ ناک ہے۔ انہی سات سُروں کو خالص ترتیب سے یکجا کرنے سے راگ وجود میں آئے ہیں۔
آپ کا ردعمل کیا ہے؟