سیموئیل ہان مین، برصغیر اور اردو
دنیا میں مختلف امراض، اور جسمانی تکالیف کا شکار لوگ ہومیوپیتھی طریقۂ علاج پر بھی بھروسا کرتے ہیں۔ عام طور پر ہومیوپیتھی کو سرجری کے بغیر ایک سستا اور بہترین طریقۂ علاج تصّور کیا جاتا ہے اور پاکستانی عوام اس سے نہ صرف مانوس ہیں بلکہ ان کی اکثریت ہیومیوپیتھک معالجین سے رجوع کرتی ہے۔ […]
دنیا میں مختلف امراض، اور جسمانی تکالیف کا شکار لوگ ہومیوپیتھی طریقۂ علاج پر بھی بھروسا کرتے ہیں۔
عام طور پر ہومیوپیتھی کو سرجری کے بغیر ایک سستا اور بہترین طریقۂ علاج تصّور کیا جاتا ہے اور پاکستانی عوام اس سے نہ صرف مانوس ہیں بلکہ ان کی اکثریت ہیومیوپیتھک معالجین سے رجوع کرتی ہے۔ تاہم جدید سائنس اسے صرف ’علاج بالمثل‘ کے اصول پر قائم طریقہ کہتی ہے اور اس پر پابندی عائد کرنے کا مطالبہ کیا جاتا ہے۔ اس کے باوجود ہومیوپیتھی ادویہ کا استعمال اکثر ممالک میں لوگوں کا معمول ہے، لیکن ناقدین نے اسے متنازع طریقۂ علاج کہا ہے اور جدید طبّی سائنس اسے مسترد کرتی ہے۔
اس طریقۂ علاج کا بانی سیموئیل ہان مین کو تسلیم کیا جاتا ہے۔ سیموئیل ہان مین 1755ء میں جرمنی میں پیدا ہوئے تھے۔ انھوں نے علمِ نباتات کی تعلیم حاصل کی اور سائنسی علوم سیکھنے کے بعد ڈاکٹر بن گئے۔ لیکن وہ اس وقت مروّجہ طریقۂ علاج اور ادویات سے غیر مطمئن تھے۔ ہان مین نے یہ شعبہ ترک کر دیا۔ اور ایک محقق و مترجم کی حیثیت سے کام کرنے لگے۔ ایک مرتبہ وہ کچھ مسودوں کا ترجمہ کر رہے تھے جو میڈیسن سے متعلق تھے۔ ڈاکٹر ہان مین نے اس دوران یہ نتیجہ اخذ کیا کہ ملیریا کے علاج کے لیے کونین کا استعمال کرنے پر بھی وہی علامات سامنے آتی ہیں جو اس بیماری سے پیدا ہوتی ہیں۔ ڈاکٹر ہان مین نے کہا کہ کئی ایسی ادویات اور ہیں جن میں وہی عناصر پائے جاتے ہیں جو کہ کونین میں ہیں لیکن ان کا ملیریا پر کوئی اثر نہیں ہوتا۔ اپنے اس مفروضے کو درست ثابت کرنے کے لیے انھوں نے خود کونین کھائی اور جلد ہی ان میں ملیریا کی علامات ظاہر ہوگئیں۔ یہ بھی ثابت ہوا کہ جب اس دوا کو ترک کردیا جاتا تو یہ علامات بھی غائب ہو جاتیں۔ وہ اس نتیجے پر پہنچے کہ ایک بیماری کے علاج کے لیے اسی طرح کی ایک اور بیماری کے جراثیم جسم کے اندر داخل کر دینے سے بیماری کو ختم کیا جاسکتا ہے۔ اس تجربے کے بعد ڈاکٹر نے اپنا نظریہ اور اپنی طبّی تحقیق پر ایک کتاب بھی لکھی یہ کتاب 1810ء میں شایع ہوئی اور اس پر جلا ردعمل سامنے آیا تھا۔
اب ہم بات کرتے ہیں برطانوی دور کے ہندوستان کی جہاں لگ بھگ ڈیڑھ سو سال قبل یہ طریقۂ علاج متعارف کروایا گیا تھا۔ اس حوالے سے اختر جمال عثمانی کے مضمون "برصغیر، ہومیوپیتھی اور اردو” سے یہ اقتباسات آپ کی معلومات میں اضافہ کریں گے۔ وہ لکھتے ہیں: ہندوستان میں ہومیوپیتھی کا تعارف اور اس کو رواج دینے کا سلسلہ انیسویں صدی میں شروع ہوا۔ محققین کے مطابق سب سے پہلے یہ بنگال میں رائج ہوئی۔ مہندر لال سرکار پہلے ہندوستانی ڈاکٹر تھے جنھوں نے ہومیو پیتھک دواؤں سے مریضوں کا علاج کرنا شروع کیا۔ ان کی دیکھا دیکھی اور کئی ڈاکٹروں نے ہومیو پیتھک پریکٹس شروع کر دی۔ 1881ء میں کلکتہ ہومیو پیتھک میڈیکل کالج کا قیام عمل میں آیا۔ اس طرح سے بنگال میں ہومیوپیتھی کو مقبولیت حاصل ہونا شروع ہو گئی۔ بنگالی زبان میں ہومیو پیتھی کے متعلق کتابوں کی دستیابی عام ہونے لگی۔ کچھ ہومیوپیتھک ڈاکٹروں کی اپنی تصانیف اور زیادہ تر انگریزی زبان سے ترجمے، اسی نہج پر مدراس میں بھی ہومیوپیتھی نے مقبولیت حاصل کی اور تامل زبان میں ہومیو کتب کی دستیابی عام ہو گئی۔ لیکن ابھی تک شمالی ہندوستان میں ہومیوپیتھی کا زیادہ رواج نہ ہو سکا تھا۔ حالانکہ اس علاقہ میں غربت عام ہونے کی وجہ سے اس طرح کے سستے علاج کی اشد ضرورت تھی۔ اگرچہ تعلیم یافتہ طبقہ میں اکثریت اردو داں حضرات کی تھی اور طب یونانی سے متعلق زیادہ تر کتابیں فارسی اور اردو میں ہوا کرتی تھیں لیکن یہ طبقہ ابھی تک ہومیوپیتھی سے نامانوس تھا۔ اردو زبان ان قیمتی اور زریں معلومات سے محروم تھی اور اس کی اشد ضرورت تھی کہ یہ معلومات مادری زبان کا جامہ پہن لیں۔ ان حالات میں مخیر حضرات نے ہومیوپیتھی سیکھنے کے بعد اس علم کو اردو میں منتقل کرنا شروع کر دیا اور بیسویں صدی کا نصف اوّل مکمل ہوتے ہوتے ہومیو پیتھی سے متعلق اردو کتب کا بہت بڑا ذخیرہ وجود میں آگیا۔ یہی وہ دور تھا کہ جب بے شمار قصبات اور مضافات میں بہت سے لوگوں نے ہومیو پیتھی سیکھی، ان میں تعلیم یافتہ زمیندار، مدرسین و دیگر سرکاری ملازمین وغیرہ شامل تھے۔ ان میں سے زیادہ تر کو مالی منفعت سے غرض نہ تھی بلکہ بنیادی طور سے خدمتِ خلق کا جذبہ ہی کارفرما تھا۔ چنانچہ بہت سے اہلِ خیر حضرات نے غریبوں کو مفت علاج فراہم کرنے کا سلسلہ شروع کیا۔ اور اس طرح وہ لوگ جو کسی طرح کے علاج کے متحمل نہیں تھے، ان کو سہارا ملا۔
اس دور میں ہومیوپیتھی کو سرکار کی سرپرستی حاصل نہ تھی، نہ ہی تعلیم کا کوئی باقاعدہ نظم تھا، اور نہ ہی ہومیوپیتھک دواؤں کے ذریعہ علاج کرنے پر کوئی پابندی ہی تھی۔ ان حالات میں برصغیر کے طول و عرض میں اس کی ترویج میں اردو نے مرکزی کردار ادا کیا۔ ان ہومیو پیتھک معالجین نے جو اردو پر بھی دسترس رکھتے تھے اور اپنے خیالات کے اظہار پر قادر تھے تصنیف و تالیف کے ذریعہ اس علم کو آگے بڑھایا۔ اس میں بیک وقت ہومیوپیتھی اور اردو دونوں کی خدمت کا جذبہ پنہاں تھا۔
اس قافلے میں بے شمار لوگ شامل تھے۔ لیکن لکھنؤ کے ڈاکٹر کاشی رام کو بلاشبہ اس قافلے کا سالار کہا جاسکتا ہے، جن کی کتاب ’سائیکلوپیڈیا آف ہومیو پیتھک ڈرگز یعنی مخزن المفردات ہومیوپیتھی‘ تین ضخیم جلدوں میں آج تقریباََ ایک صدی گزرنے کے بعد بھی ہومیوپیتھی کی اردو کتابوں میں سرِ فہرست ہے۔ ڈاکٹر کاشی رام کی دیگر تصانیف میں امراضِ نسواں، کلیدِ میٹریا میڈیکا، اور ڈاکٹر سشلر کے بارہ نمکیات سے علاج کے اصول پر مشتمل بائیو کیمک سائنس کا اہم مقام ہے۔ ڈاکٹر دولت سنگھ دہلی کی کتابیں میٹریا میڈیکا مع رپریٹری، پریکٹس آف میڈیسن اور رفیقِ ہومیو پیتھی اور ڈاکٹر بشمبھر داس کی کتاب دوا کا انتخاب بھی قابلِ ذکر ہیں۔ ان تصانیف کے علاوہ انگریزی اور دیگر زبانوں سے اردو میں ترجمہ کی گئی کتب بھی اہمیت کی حامل ہیں۔
ہومیوپیتھی سے متعلق ماہانہ اردو رسالوں کا سلسلہ بھی کافی عرصہ تک جاری رہا جس میں لاہور سے جاری ہومیوپیتھک میگزین اور ہومیوپیتھک لیڈر اور لکھنؤ سے جاری ہومیوپیتھک دنیا نے کافی عرصے تک اشاعت جاری رکھی۔ دہلی سے نکلنے والا ماہنامہ روزگار جس میں نصف حصہ ہومیوپیتھی کے لیے وقف رہتا تھا۔
آپ کا ردعمل کیا ہے؟