سلمیٰ ممتاز:‌ فلمی صنعت کی ایک بے مثال اداکارہ

پاکستانی فلم انڈسٹری میں‌ سلمیٰ ممتاز کو ملکۂ جذبات کہا جاتا تھا۔ انھوں نے تین دہائیوں تک بڑے پردے پر کام کیا اور بے مثال پرفارمنس سے سنیما بینوں کے دلوں پر راج کرتی رہیں۔ اداکارہ سلمیٰ‌ ممتاز کو مرکزی کرداروں کے ساتھ اردو اور پنجابی فلموں میں ماں کے روپ میں بے پناہ شہرت […]

 0  0
سلمیٰ ممتاز:‌ فلمی صنعت کی ایک بے مثال اداکارہ

پاکستانی فلم انڈسٹری میں‌ سلمیٰ ممتاز کو ملکۂ جذبات کہا جاتا تھا۔ انھوں نے تین دہائیوں تک بڑے پردے پر کام کیا اور بے مثال پرفارمنس سے سنیما بینوں کے دلوں پر راج کرتی رہیں۔

اداکارہ سلمیٰ‌ ممتاز کو مرکزی کرداروں کے ساتھ اردو اور پنجابی فلموں میں ماں کے روپ میں بے پناہ شہرت ملی۔ آج پاکستانی فلموں کی صفِ اوّل کی اس اداکارہ کا یومِ وفات ہے۔ 21 جنوری 2012ء کو سلمیٰ‌ ممتاز لاہور میں انتقال کرگئی تھیں۔

اردو فلموں سے اداکاری کا آغاز کرنے والی سلمیٰ‌ ممتاز بعد میں سماجی موضوعات پر بننے والی پنجابی فلموں میں زیادہ تر ماں کے کردار نبھاتی ہوئی دکھائی دیں۔ اس کی ایک وجہ پنجابی زبان میں ایکشن فلموں کا دور دورہ تھا جس میں وہ پس منظر میں چلی گئیں۔ یہ وہ دور تھا جب بلند آواز سے یا خاص گھن گرج کے ساتھ فلموں میں مکالموں کی ادائیگی پر زور دیا جارہا تھا۔ اداکارہ سلمیٰ‌ ممتاز یہ نہیں کرسکیں اور انھیں انڈسٹری میں مخصوص کردار ہی دیے جانے لگے۔ اداکارہ سلمیٰ ممتاز کی خاص بات یہ تھی کہ ہیروئن کا رول نہ کرنے کے باوجود انھیں فلمی پردے پر بہت پسند کیا گیا اور ان کے کردار یادگار ثابت ہوئے۔

لگ بھگ تین سو فلموں میں کام کرنے والی سلمیٰ ممتاز کی پہلی فلم دربار بعض کے نزدیک نیلو فر تھی۔ یہ 1958ء کی بات ہے، لیکن ان کو بریک تھرو 1963ء میں بننے والی فلم موج میلہ سے ملا۔ موج میلہ وہ فلم تھی جس میں اداکارہ ولن کی ماں کے روپ میں سامنے آئیں اور لاجواب اداکاری کی۔ فلم کا ولن وہ کردار تھا جس سے سب ڈرتے تھے، لیکن وہ اپنی ماں کے سامنے بھیگی بلّی بن جاتا تھا۔ اگلے سال فلم ہتھ جوڑی آئی اور یہ بھی اداکارہ کی یادگار فلم تھی۔

سلمیٰ‌ ممتاز نے یوں تو ماں کے روپ میں‌ کئی فلموں میں عمدہ جذبات نگاری کی، لیکن 1968ء میں ریلیز ہونے والی جگ بیتی میں ان کا کردار لازوال ثابت ہوا۔ یہ ایسی عورت کا کردار تھا جو ہر وقت سَر پر کپڑا باندھے، مصنوعی بیماری کا رونا روتی اور خاص طور پر اپنی بہو اور اپنے پچھلوں کو کوستے ہوئے دن گزارتی تھی۔ گویا یہ معاشرے کا ایک جیتا جاگتا کردار تھا جو ہر ایک سے خفا اور شاکی تھا۔ اس عورت کا غصّہ اس وقت آسمان کو چھونے لگتا جب اس کی معصوم پوتی اپنی دادی نقل اتارتی ہے۔

سلمیٰ‌ ممتاز 1926ء کو جالندھر میں پیدا ہوئیں۔ ان کی زندگی کئی مشکل حالات کا سامنا کرتے ہوئے گزری جس میں‌ تقسیم کے بعد ہجرت اور پاکستان میں‌ قیام اور معاشی حالات کے ساتھ زندگی کی کئی تلخیاں شامل ہیں، ان کا اصل نام ممتاز بیگم تھا۔ انھوں نے ریڈیو کے ڈراموں میں بھی کام کیا۔انھوں نے معاون اداکارہ کے علاوہ کیریکٹر ایکٹریس کی حیثیت سے بھی اپنی صلاحیتوں کو منوایا۔ انھوں نے فلم سازی اور ہدایت کاری کا تجربہ بھی کیا۔

اداکارہ سلمیٰ ممتاز نے محمد علی، وحید مراد، شاہد اور سدھیر کے ساتھ کئی فلموں میں کام کیا۔ فلم ’ہیر رانجھا‘ میں انھوں نے ہیر کی ماں کا کردار ادا کیا تھا جس میں مکالموں کی ادائیگی کے ساتھ ان کے چہرے کے تاثرات نے اس کردار کو لازوال بنا دیا۔

وہ ایسی خاتون تھیں جسے فلم انڈسٹری میں بہت عزّت اور احترام ملا اور انھوں نے پُروقار انداز سے اپنا فنی سفر تمام کیا۔

آپ کا ردعمل کیا ہے؟

like

dislike

love

funny

angry

sad

wow