حمید چوہدری: ایک کوریو گرافر کی کہانی

پاکستان اور بھارت میں بننے والی فلموں میں جہاں ایکشن اور مار دھاڑ کے مناظر خاص طور پر شامل کیے جاتے ہیں، وہیں موسیقی اور رقص کے بغیر فلم مکمل نہیں تصور کی جاتی۔ فلمی دنیا میں اداکاروں کے بعد فلمی نغمہ نگار اور موسیقاروں کے ساتھ کوریو گرافر یا ڈانس ماسٹر کو بڑی اہمیت […]

 0  13
حمید چوہدری: ایک کوریو گرافر کی کہانی

پاکستان اور بھارت میں بننے والی فلموں میں جہاں ایکشن اور مار دھاڑ کے مناظر خاص طور پر شامل کیے جاتے ہیں، وہیں موسیقی اور رقص کے بغیر فلم مکمل نہیں تصور کی جاتی۔ فلمی دنیا میں اداکاروں کے بعد فلمی نغمہ نگار اور موسیقاروں کے ساتھ کوریو گرافر یا ڈانس ماسٹر کو بڑی اہمیت حاصل ہوتی ہے۔ کوریو گرافر ہی کسی فلمی گیت پر پرفارمنس کے لیے ہیرو اور ہیروئن کی تربیت کرتا ہے۔ حمید چوہدری پاکستانی فلموں کے ایک ماہر کوریو گرافر تھے جن کے نام سے آج شاید ہی کوئی واقف ہو۔

ایک عام فلم بین کوریو گرافر کے بارے میں جاننے میں‌ کوئی دل چسپی نہیں‌ رکھتا بلکہ یہ کہنا چاہیے کہ فلمی گیت پر ڈانس کرتے ہوئے ہیرو ہیروئن کو دیکھ کر اس کے ذہن میں‌ یہ خیال بھی نہیں‌ آتا کہ فقط ایک گانے کی عکس بندی کے لیے کسی کوریو گرافر نے ان فن کاروں پر کتنا وقت صرف کیا ہوگا اور انھیں یہ اسٹیپ سکھائے ہوں‌ گے تاکہ وہ کام یابی سے یہ گانا عکس بند کروا سکیں اور شائقین سے داد سمیٹیں۔

حمید چوہدری نے بطور کوریو گرافر پہلی مرتبہ پنجابی فلم چوڑیاں کے لیے کام کیا تھا۔ یہ فلمی ہدایت کار امین ملک کی 1963 میں سپر ہٹ فلم تھی۔ اسی سال اردو زبان میں بھی ایک فلم ریلیز ہوئی جس کا نام کالا پانی تھا اور اس فلم میں حمید چوہدری نے پہلی بار مشہور اداکارہ اور اپنے وقت کی مقبول ہیروئن شمیم آرا کو رقص کروایا تھا۔

پاکستانی فلموں کے اس ڈانس ماسٹر نے ماسٹر فیروزعزیز، ماسٹر عاشق سمراٹ اور ان کے بھائی ماسٹر صدیق سمراٹ سے رقص کے اسرار و رموز سیکھے تھے۔ بعد میں حمید چوہدری سے بھی کئی فن کاروں نے اس کی تربیت حاصل کی۔

ڈانس ماسٹر کے طور پر حمید چوہدری کی فلموں میں ہیر رانجھا (1970)، مہندی (1985) اور قیدی (1986) مشہور فلمیں ہیں۔ 2010ء میں ان کی آخری فلم لاڈو تھی اور یہ ان کے انتقال کے ایک سال بعد ریلیز ہوئی تھی۔

حمید چوہدری نے بطور اداکار بھی ڈیڑھ درجن کے قریب فلموں میں کام کیا تھا۔ حمید چوہدری نے بطور فلم ساز اور ہدایت کار بھی اپنی صلاحیتوں کو آزمایا تھا اور 1973 میں فلم شرابی بنائی تھی جس میں سنتوش کمار جیسے نام ور اداکار نے کام کیا تھا۔ ان کی دوسری فلم 1978 میں عبرت تھی جس میں آسیہ اور سلطان راہی کی جوڑی نظر آتی ہے اور یہ دونوں ہی فلمیں ناکام رہی تھیں۔

(پاکستان فلم میگزین سے ماخوذ)

آپ کا ردعمل کیا ہے؟

like

dislike

love

funny

angry

sad

wow