جمالِ تخلیق اور قوّتِ حیات
فنونِ لطیفہ بھی انسان اور کائنات کے درمیان ربط و تعلق پیدا کرتے ہیں مگر ان سے اس کا اصل مقصود حاصل نہیں ہوتا۔ حقیقت یہ ہے کہ جمالِ کائنات نظریۂ اسلامی کا ایک حصہ ہے اور اس کے ذریعے نفس میں وسعت، تصور میں گہرائی اور ادراک میں بصیرت پیدا ہوتی ہے اور اس […]
فنونِ لطیفہ بھی انسان اور کائنات کے درمیان ربط و تعلق پیدا کرتے ہیں مگر ان سے اس کا اصل مقصود حاصل نہیں ہوتا۔ حقیقت یہ ہے کہ جمالِ کائنات نظریۂ اسلامی کا ایک حصہ ہے اور اس کے ذریعے نفس میں وسعت، تصور میں گہرائی اور ادراک میں بصیرت پیدا ہوتی ہے اور اس سے مقصد اللہ سبحانہ تعالیٰ تک رسائی ہے اور اس طرح فن عقیدے سے مل جاتا اور مادّی احساس روحانی احساس کے ساتھ ہم آہنگ ہو جاتا ہے۔
اس وسعت اور جامعیت سے انسان کی اندر کی دنیا سنور اور نتھر جاتی ہے اور انسان، انسان صالح بن جاتا ہے کیونکہ اس کے آفاق کی وسعت کی بناء پر اور ساتھ ساتھ اس کا اللہ سے تعلق قائم ہو جانے کی بنا پر اس کے نفس کے سامنے سے پردے ہٹ جاتے اور رکاوٹیں دور ہو جاتی ہیں۔
اس بلند آفاقیت کا ایک نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ انسان تمام جان داروں سے محبت کرنے لگتا ہے کیونکہ جب انسان روح کے رشتے سے اپنے اور تمام زندہ کائنات کے درمیان ایک تعلق کا احساس کرتا ہے تو اس کو اپنے اندر ایک جاندار تعلق ابھرتا ہوا محسوس ہوتا ہے اور وہ تمام زندگی کی حامل موجودات کے ساتھ ایک تعلق محبت کا محسوس کرنے لگتا ہے۔
قرآنِ کریم میں زندہ موجودات کے بارے میں گفتگو، خواہ وہ نباتات ہوں یا حیوانات، انسانی نفس میں یہی احساس پیدا کرتا ہے اور انسان ان موجودات سے قرابت کا گہرا روحانی تعلق محسوس کرنے لگتا ہے اور اس طرح ہر انسان میں ہر جان دار کے لیے ایک تعلق محبت پیدا ہو جاتا ہے اور حتّٰی کہ یہ تعلق اس وقت بھی موجود ہوتا ہے جب انسان کسی جانور کی ایذا سے اپنی مدافعت کر رہا ہوتا ہے اور اس وقت بھی انسان کے دل میں محبت و الفت اور نرمی و موَّدَت کا جذبہ موجود ہوتا ہے۔
یہ احساس اور تمام وسیع کائنات کے ساتھ الفت کا احساس انسانی نفس کی تہذیب اور اس کی سختی اور خشونت دور کرنے میں بڑا مؤثر ثابت ہوتا ہے کیونکہ نفس کو اس نرم و نازک اور لطیف احساس الفت اور شعور موَّدت کا عادی بنا لینے سے نفس کی اس کسل مندی کا ازالہ ہو جاتا ہے جو اس میں مادی اور واقعی زندگی کے برتاؤ سے اور حصول رزق کی جدو جہد سے پیدا ہو جاتی ہے اور یہ کسل مندی انسانی جسم میں زہر کی طرح سرایت کر جاتی ہے اور اسے ناکارہ بنا دیتی ہے اس لیے اس کا دور کرنا انتہائی ضروری ہے۔ کیونکہ جس طرح جسم کھانوں کی تیزابیت کے جمع ہو جانے سے بیماریوں میں مبتلا ہو جاتا ہے اسی طرح نفس بھی سمومیت کے ارتکاز سے بیمار ہو جاتا ہے اور نفس کی یہ سمومیت جذبہ محبت سے دور ہوتی ہے جو دراصل وہ بلند اور شفاف روح ہے جس میں عظمتِ انسان جھلکتی ہے اور جو اس نفخۂ روحانی کی خوشبو ہے جسے اللہ سبحانہ نے مشتِ خاکی میں پھونکا ہے۔ اور یہی وسیع حدود کی حامل ہر شے سے محبت ہے جو اسلام اور قرآن نفسِ انسانی میں پیدا کرتا ہے۔
اسی طرح اسلام انسان اور انسان کے درمیان رشتہ محبت و موَّدت پیدا کرتا ہے حتی کہ انسان ان دوسرے انسانوں سے بھی محبت کرتا ہے جو اس کو زندگی کے راستوں میں تکلیفیں پہنچاتے اور اس کے لیے اذیت کا باعث بنتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اللہ سبحانہ کی دائمی عبادت اور مسلسل اور پیہم اس کی رضا کے حصول کی کوشش انسان کے شعور کی گہرائیوں دوسرے افراد بنی نوع انسان کے لیے جذبۂ محبّت پیدا کر دیتی ہے کیونکہ تمام انسان اللہ کی مخلوق ہیں اور بر بنائے تخلیق باہم بھائی بھائی ہیں اور تمام انسان مٹی سے پیدا ہوئے ہیں اور اس تخلیقی ماہیت کے لحاظ سے باہم بھائی بھائی ہیں اور سب انسانوں کو اللہ ہی کی جانب رجوع کرنا ہے۔
نفس کی گہرائیوں میں موجود اس اصول اور ضابطہ کی بناء پر لوگوں میں برائی کی کشمکش ایک زائل ہو جانے والی عارضی حالت ہوتی ہے اور سلامتی ہی زندگی کی اصل اور مستقیم (Normal) حالت ہوتی ہے جب کہ جنگ و پیکار ایک شاذ (Abnormal) حالت ہوتی ہے خواہ یہ پیکار و کشمکش اور یہ جنگ کتنی ہی طویل کیوں نہ ہو جائے اور خواہ ایذا رسانی اپنی انتہا کو کیوں نہ پہنچ جائے مگر افراد بنی نوع انسان کے درمیان کینہ نہیں ہوگا بلکہ وہ بدستور دلوں میں برائی کو برا محسوس کرتے رہیں گے اور اس امرکی توقع رکھیں گے کہ کسی وقت وہ ہدایت پا جائیں گے اور سرکشی سے باز آجائیں گے۔ بلکہ اگر یہ امید بھی منقطع ہو جائے اور یہ توقع بھی ختم ہو جائے، شر بالکل چھا جائے اور جنگ برملا ہو جائے پھر بھی کینوں پر غالب آجانے والے بلند انسانی مشاعرکی بنا پر یہ جنگ جنگلی جانوروں کی سی جنگ کی طرح نہ ہوگی اور اس میں ان جیسی وحشت و بربریت پیدا نہیں ہو گی۔
مقصدِ حیات یہ نہیں ہے کہ انسان جسم کے حیاتیاتی مطالبات کی تکمیل میں لگا رہے۔ بلکہ اس ضرورت سے زیادہ زندگی اور حیات کی فطرت میں ایک جمال اور حسن بھی ہے اور یہ حسن و جمال ان امور کے اور ان ضروریات کے بطریق احسن ادا کرنے میں جلوہ گر ہوتا ہے۔
اس امر کی وضاحت کے لیے اس وسیع و عریض کائنات پر ذرا ایک نظر ڈالنا ضروری ہے تا کہ کائنات کے حسن و جمال کے بارے میں انسان کے علم بصیرت میں اضافہ ہو، ذرا آپ رنگارنگ ، خوش رنگ و خوش بو مہکتے ہوئے پھولوں کو دیکھیے کیا یہ ساری نیرنگی سارا حسن اور سارا جمال محض ایک ضرورت کی تکمیل ہے یا یہ حسن و جمال ضرورت سے ماورا کسی مقصد کا حامل ہے۔
سائنس دان کہتے ہیں کہ پھولوں کا مقصدِ وجود یہ ہے کہ شہد کی مکھیاں اس سے شہد حاصل کریں جو انسان کے لیے غذا اور شفا ہے اور یہ کہ یہ پھول نباتات کو بار آور (Pollination) کرنے کا وظیفہ بھی انجام دیتے ہیں۔ لیکن جہاں تک شہد کی مکھی کا تعلق ہے اس کے لیے پھولوں میں اس قدر حسن و جمال کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ شہد کی مکھی ایک سیدھی سادی مخلوق ہے اور وہ جہاں ایک بے حد حسین اور خوبصورت پھول پر یہ پر بیٹھتی ہے وہاں وہ ایک عام سے پھول پر بھی بیٹھتی ہے اس لیے محض شہد کی مکھی کے حوالے سے اور محض ضرورت کے تحت پھولوں میں اس قدر حسن و جمال کی ضرورت نہیں ہے، بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ حیاتیاتی مقاصد تو ایک سادہ پھول سے بھی اس قدر عمدہ طریقے پر پورے ہو جاتے ہیں جس طرح کہ ایک خوبصورت ترین پھول سے پورے ہوتے ہیں۔
جمال طبعیت (Nature) کا بہ نظر غائر مطالعہ کیجیے۔ کیا جمال شفق، حسن طلوعِ صبح ، لرزه فگن پرہیبت پہاڑ، موج در موج اتھاہ پھیلے ہوئے سمندر، چاندنی رات ، صبح کی چمکیلی دھوپ، شام کے ملگجے سائے اور سرگوشی کرتی ہوئی کائنات ، سب محض حیاتیاتی ضرورت کی تحمیل ہے اور کیا اس سارے حسن و جمال کے بغیر زندگی وجود میں نہیں آسکتی تھی؟
کیا یہ فتنہ پرور چہرے، یہ حسن و خوبصورتی کے ترشے ہوئے چہرے، یہ ہنستی بولتی حسین آنکھیں اور یہ چہرے کے نقوش سے پھوٹتی ہوئی روح کے جمال کی روشنی محض حیاتیاتی ضرورت (Biological Necessity) ہے؟ اور کیا کھانے پینے اور سانس لینے کی ضرورتیں برے بھلے ہر طریقے پر پوری نہیں ہو جاتیں؟ اور کیا خود جنس ہر نر و مادہ میں خوبصورتی سے قطع نظر کر کے پوری نہیں ہو جاتی؟ یقینا یہ حسن و جمال ہے اور محض حیاتیاتی ضرورت نہیں ہے بلکہ اللہ نے فطرت کو اس طرح پیدا کیا ہے کہ وہ حیاتیاتی اعمال محض ضرورت کے تحت نہ کرے بلکہ وہ ان کو عمدگی اور حسن اور خوبصورتی سے انجام دے۔
(اسلام کا نظامِ تربیت از قلم محمد قطب)
آپ کا ردعمل کیا ہے؟