‘’بے قرار‘ اپنے وقت سے بہت آگے کی فلم تھی!’
متحدہ ہندوستان میں تھیٹر کے بعد ناطق فلموں کا دور شروع ہوا تو شائقین اس میڈیم کے دیوانے ہوگئے۔ اس وقت سماجی موضوعات پر نہایت معیاری اور شان دار فلمیں بنائی گئیں۔ اس دور کے سنیما نے ہندوستان کے لوگوں میں سماجی شعور اجاگر کیا اور ملک کے مختلف طبقات کی بہترین اور مؤثر ترجمانی […]
متحدہ ہندوستان میں تھیٹر کے بعد ناطق فلموں کا دور شروع ہوا تو شائقین اس میڈیم کے دیوانے ہوگئے۔ اس وقت سماجی موضوعات پر نہایت معیاری اور شان دار فلمیں بنائی گئیں۔ اس دور کے سنیما نے ہندوستان کے لوگوں میں سماجی شعور اجاگر کیا اور ملک کے مختلف طبقات کی بہترین اور مؤثر ترجمانی کی گئی۔ تقسیمِ ہند کے بعد یہ سلسلہ پاکستان اور بھارت میں زیادہ عرصہ جاری نہ رہ سکا اور پھر رشتوں کا اتار چڑھاؤ، رومانس اور مار دھاڑ فلموں میں عام ہوگئی۔ کئی فلم ساز اور ہدایت کار مایوس ہو کر فلم انڈسٹری سے دور ہوگئے۔
پاکستانی سنیما کی بات کی جائے تو یہاں بھی بامقصد فلمیں بنائی گئیں اور بڑا کام ہوا لیکن ایسی فلمیں ناکام ہونے لگیں اور مالی خسارے نے کئی بڑے اور باکمال فلم سازوں، ہدایت کاروں کو پیچھے ہٹنے پر مجبور کر دیا۔ یہاں ہم سینئر صحافی، مصنّف اور محقق عارف وقار کی ایک تحریر بعنوان ‘جب پہلی بامقصد فلم بنی’ سے چند پارے نقل کررہے ہیں جس میں انھوں نے پاکستان کی پہلی بامقصد فلم کا ذکر کیا ہے اور اس فلم کے ذریعے کسانوں کو پیغام دیا گیا تھا کہ زیادہ اناج اگانا ہماری ضرورت ہے۔ وہ لکھتے ہیں:
"میرے بچپن میں ریڈیو سے دو گانے بڑی کثرت سے بجا کرتے تھے:
دِل کو لگا کے کہیں ٹھوکر نہ کھانا
ظالم زمانہ ہے یہ ظالم زمانہ
اور انھی گلوکاروں کی آواز میں ایک اور دو گانا بھی مشہور تھا:
او پردیسیا بُھول نہ جانا
میں عرصہ دراز تک انھیں کسی بھولی بسری ہندوستانی فلم کے گیت سمجھتا رہا لیکن کالج کے زمانے میں پہنچ کر پتہ چلا کہ گانے والے علی بخش ظہور اور منّور سلطانہ ہیں اور یہ پاکستانی فلم ’ بے قرار ‘ کے گانے ہیں جو کہ 1950 میں بنی تھی۔
آج فلم بے قرار کے بارے میں سوچتا ہوں تو بلا خوفِ تردید کہہ سکتا ہوں کہ یہ پاکستان کی پہلی بامقصد فلم تھی اور اس کا مقصد ملک کے کسانوں کو یہ باور کرانا تھا کہ زیادہ اناج اگانا اس وقت ملک کی اہم ترین ضرورت ہے۔
فلم میں ایک غریب کاشت کار گندم کی بہتر پیداوار حاصل کر کے حکومت کے انعام و اکرام کا حق دار ٹھہرتا ہے اور اس طرح زمین دار کے عیاش بیٹے کی دشمنی مول لے لیتا ہے۔ یہ دشمنی بعد میں رانی نام کی لڑکی تک رسائی حاصل کرنے کے لئے ایک چیلنج کی شکل اختیار کر لیتی ہے۔
فلم کے مصنف اور ہدایت کار نذیر اجمیری تھے جنھوں نے خاموش دور میں ایک اداکار کے طور پر اپنے کیریئر کا آغاز کیا تھا اور بعد میں ایک اسکرپٹ رائٹر کے طور پر فلم انڈسٹری میں اپنا مقام مستحکم کر لیا تھا۔
پاکستان آنے سے پہلے انھوں نے بمبئی میں فلم ’ مجبور‘ بنائی تھی جِس میں پہلی بار لتا منگیشکر کو واحد آواز میں گانے کا موقع ملا تھا ( اس سے پہلے وہ صرف کورس میں گاتی رہی تھیں)۔
نذیر اجمیری کے ساتھ ماسٹر غلام حیدر بھی پاکستان آگئے تھے اور دونوں نے ایس گُل کے اشتراک سے ایک فلم کمپنی شروع کی اور یوں فلم ’بے قرار‘ وجود میں آئی جس کے ہیرو خود ایس گُل تھے اور موسیقی ماسٹر غلام حیدر نے مرتب کی تھی۔
اس فلم کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ اپنے وقت سے بہت آگے تھی۔ شاید اسی لئے اچھے موضوع اور دل کش موسیقی کے باوجود یہ کاروباری طور پر نا کام رہی۔ البتہ اس کے ایک برس بعد بننے والی پنجابی فلم ’چن وے‘ نے کاروباری سطح پر تہلکہ مچا دیا۔”
چن وے کے بارے میں عارف وقار لکھتے ہیں:
چن وے 24 مارچ 1951 کو لاہور کے ریجنٹ سنیما میں ریلیز ہوئی اور عوام نے عرصہ دراز کے بعد کسی سینما پر لمبی قطاروں اور دھینگا مشتی کی مناظر دیکھے۔ ’جُگنو‘ کے چار برس بعد نور جہاں کی کوئی فلم سامنے آئی تھی اور لوگ اس کی ایک جھلک دیکھنے کے لئے بے قرار تھے۔
چن وے کی سب سے اہم بات یہ تھی کہ اسے خود نور جہاں نے ڈائریکٹ کیا تھا اور اساطیرِ لالی وُڈ میں تو یہاں تک کہا جاتا ہے کہ اس کا میوزک بھی نور جہاں نے خود ہی دیا تھا اور فیروز نظامی محض نام کے موسیقار تھے۔ تاہم وفات سے کچھ عرصہ قبل لندن میں اپنے ایک طویل انٹرویو کے دوران نور جہاں نے ان قصّوں کی تردید کرتے ہوئے راقم کو بتایا کہ فیروز نظامی اپنے فن کے ماہر تھے، وہ موسیقی کے تمام اسرار و رموز سے واقف تھے اور چن وے کی ساری دُھنیں ان کے ذاتی کمالِ فن کا نتیجہ تھیں۔
چن وے کی کام یابی میں اس کے گیتوں کا بڑا دخل تھا۔ اور گیت بھی ایک سے بڑھ کر ایک تھے:
تیرے مکُھڑے دا کالا کالا تِل وے
میرا کڈھ کے لے گیا دِل وے
وے منڈیا سیالکوٹیا!
پنجاب کی سڑکوں پہ ہر من چلا یہ گیت گنگناتا پھرتا تھا۔ لیکن نور جہاں کے فن کی پختگی اور گلے کا ریاض اُس گانے میں نظر آتا ہے جس کے بول ہیں:
’چن دیا ٹوٹیا وے دِلاں دیا کھوٹیا‘
’تان پلٹے‘ کے جو کرتب نور جہاں نے اس گیت میں دکھائے شاید انھی کے پیشِ نظر یہ افواہ اڑی تھی کہ اس فلم کا میوزک بھی نور جہاں نے خود دیا ہے۔ چن وے کے گیت پاپولر شاعر ایف۔ ڈی شرف نے لکھے تھے جو قریبی حلقوں میں ’ بھا شرف ‘ کے نام سے معروف تھے اور قبل ازیں کلکتے میں بننے والی کئی پنجابی فلموں کے گانے اور مکالمے لکھ چکے تھے۔”
آپ کا ردعمل کیا ہے؟