بوتل کا قیدی

وہ ایک بڑا سنسان جزیرہ تھا۔ اونچے اونچے اور بھیانک درختوں سے ڈھکا ہوا۔ جتنے بھی سیاح سمندر کے راستے اس طرف آتے، ایک تو ویسے ہی انھیں حوصلہ نہ ہوتا تھا کہ اس جزیرے پر قدم رکھیں۔ دوسرے آس پاس کے ماہی گیروں کی زبانی کہی ہوئی یہ باتیں بھی انھیں روک دیتی تھیں […]

 0  3
بوتل کا قیدی

وہ ایک بڑا سنسان جزیرہ تھا۔ اونچے اونچے اور بھیانک درختوں سے ڈھکا ہوا۔ جتنے بھی سیاح سمندر کے راستے اس طرف آتے، ایک تو ویسے ہی انھیں حوصلہ نہ ہوتا تھا کہ اس جزیرے پر قدم رکھیں۔ دوسرے آس پاس کے ماہی گیروں کی زبانی کہی ہوئی یہ باتیں بھی انھیں روک دیتی تھیں کہ اس جزیرے میں آج تک کوئی نہیں جا سکا اور جو گیا وہ واپس نہیں آیا۔ اس جزیرے پر ایک انجانا خوف چھایا رہتا ہے۔ انسان تو انسان پرندہ بھی وہاں پر نہیں مار سکتا۔

یہ اور اسی قسم کی دوسری باتیں سیاحوں کے دلوں کو سہما دیتی تھیں۔ بہتیروں نے کوشش کی مگر انہیں جان سے ہاتھ دھونے پڑے۔

ایک دن کا ذکر ہے کہ چار آدمیوں کے ایک چھوٹے سے قافلے نے اس ہیبت ناک جزیرے پر قدم رکھا۔ کمال ایک کاروباری آدمی تھا۔ وہ بمبئی کے ہنگاموں سے اکتا کر ایک پرسکون اور الگ تھلگ سی جگہ کی تلاش میں تھا۔ جب اسے معلوم ہوا کہ وہ جزیرہ ابھی تک غیر آباد ہے تو اس نے اپنی بیوی پروین، اپنی لڑکی اختر، اپنے لڑکے اشرف جس کی عمر پندرہ سال تھی، ان کو بتایا۔ دونوں بھائی بہن نے جو یہ بات سنی تو بے حد خوش ہوئے۔ کیونکہ ان کے خیال میں اس جزیرے پر ایک چھوٹے سے گھر میں کچھ وقت گزارنا جنت میں رہنے کے برابر تھا۔

آخر کار وہ دن آہی گیا جب کمال اپنے بچوں کے ساتھ اس جزیرے پر اترا۔ جزیرہ اندر سے بہت خوبصورت تھا۔ جگہ جگہ پھولوں کے پودے لہلہا رہے تھے۔ تھوڑے تھوڑے فاصلے پر پھل دار درخت سینہ تانے کھڑے تھے۔ اونچے اونچے ٹیلوں اور سبز گھاس والا جزیرہ بچوں کو بہت پسند آیا۔ مگر اچانک کمال نے چونک کر ادھر ادھر دیکھنا شروع کر دیا۔ اسے ایسا لگا جیسے کسی نے ہلکا قہقہہ لگایا ہو۔ پہلے تو اس نے اس بات کو وہم سمجھ کر دل میں جگہ نہیں مگر دوبارہ بھی ایسا ہی ہوا تو اس کے کان کھڑے ہوئے۔ اس نے دل میں سوچ لیا کہ ماہی گیروں کی کہی ہوئی باتوں میں سچائی ضرور ہے۔ مگر اس نے بہتر یہی سمجھا کہ اپنے اس خیال کو کسی دوسرے پر ظاہر نہ کرے۔ اگر وہ ایسا کرتا تو بچے ضرور ڈر جاتے۔

جب تک دن رہا وہ سب جزیرے کی سیر کرتے رہے۔ رات ہوئی تو انہیں کوئی محفوظ جگہ تلاش کرنی پڑی جہاں وہ خیمہ لگانا چاہتے تھے۔ آخر ایک چھوٹے سے ٹیلے سے نیچے انہوں نے خیمہ گاڑ دیا۔ مگر کمال بار بار وہی سوچ رہا تھا کہ وہ ہلکے سے قہقہے اسے پھر سنائی دیے۔ کمال کو پریشانی تو ضرور ہوئی مگر وہ اپنی اس پریشانی کو دوسروں پر ظاہر نہیں کرنا چاہتا تھا۔ اس لیے اس نے اپنی بیوی سے کہا، ’’ابھی تو اسی جگہ رات بسر کی جائے۔ صبح کو ایسی جگہ دیکھوں گا جہاں مکان بنایا جا سکے۔‘‘

’’مگر سنو کمال۔ کیا تم نے کسی کے ہنسنے کی آواز سنی ہے؟‘‘ پروین نے سہم کر پوچھا۔

’’سنی تو ہے۔‘‘ کمال نے آہستہ سے کہا۔ ’’مگر اس بات کو بچوں سے چھپائے رکھنا، میرے خیال میں ماہی گیر ٹھیک کہتے تھے۔ مگر ڈرنے کی کوئی بات نہیں۔ میں اتنا بزدل نہیں ہوں کہ ان معمولی باتوں سے گھبراؤں۔‘‘

ابھی وہ باتیں کر ہی رہے تھے کہ اشرف نے سہم کر کہا ’’ابا۔ میں نے کسی کی ہنسی سنی ہے اور یہ ہنسی بہت قریب ہی سے سنائی دی ہے۔ کیا بات ہے؟ کہیں یہاں بھوت ووت تو نہیں ہیں؟‘‘

’’پاگل مت بنو اشرف۔ یہ تو کسی پرندے کی آواز ہے۔ میں بھی بہت دیر سے سن رہا ہوں۔‘‘

کمال نے تو یہ کہہ کر اشرف کو ٹال دیا۔ مگر اشرف سوچ رہا تھا کہ اس جزیرے میں تو ایک بھی پرندہ نہیں ہے۔ پھر آخر ابا جھوٹ کیوں بول رہے ہیں! جب اس کی سمجھ میں کچھ نہ آیا تو وہ خاموشی سے اندر خیمے میں جاکر لیٹ گیا اور سوچنے لگا کہ جب صبح ہوگی تو خواہ مخواہ کا ڈر بھی اس کے دل سے دور ہوجائے گا۔ رات کو تو ایسے ہی اوٹ پٹانگ خیال ذہن میں آیا کرتے ہیں۔

صبح بھی آ گئی۔ دوسری جگہوں کی طرح یہاں پرندوں کی چہچہاہٹ بالکل نہیں تھی۔ پھولوں پر تتلیاں نہیں منڈلا رہی تھیں۔ ایک پراسرار خاموشی نے پورے جزیرے کو اپنی گود میں لے رکھا تھا۔ کمال نے سب کو اٹھایا اور پھر کہا ’’آؤ جزیرے کے کونے کونے کو دیکھیں۔ ہو سکتا ہے کہ کہیں ہمیں کوئی ایسی جگہ مل جائے جہاں پینے کا پانی بھی ہو اور جو سمندر سے قریب بھی ہو۔ بس ایسی ہی جگہ ہم اپنا چھوٹا سا گھر بنائیں گے۔‘‘

یہ سن کر سب نے سامان باندھا اور اپنے کندھوں پر لٹکا لیا۔ پھر یہ چھوٹا سا کنبہ گھر بنانے کے لئے جزیرے کے اندر بڑھنے لگا۔ شاید ایک دو فرلانگ چلنے کے بعد ہی کمال ٹھٹھک گیا۔ اس کی نظریں سامنے کی طرف جمی ہوئی تھیں۔ اس جزیرے کے خوبصورت سے جنگل میں ایک نہایت ہی خوبصورت مکان بنا ہوا تھا۔ شاید یہ مکان بہت اونچا تھا۔ کیونکہ اس کا اوپر کا حصہ درختوں میں چھپ گیا تھا۔ اس کے علاوہ وہ سب سے زیادہ حیران کرنے والی بات یہ تھی کہ یہ مکان بالکل شیشے کا نظر آتا تھا۔ گو اس کی دیواروں کے آر پار کوئی چیز نظر نہیں آتی تھی۔ لیکن دیواروں کی چمک بتاتی تھی کہ وہ شیشے کی بنی ہوئی ہیں۔ بالکل سامنے ایک دروازہ تھا اور دروازے کے آگے ننھی منی سی روش تھی۔

’’ابا۔ یہ مکان کس کا ہے؟‘‘ اختر نے پہلی بار پوچھا۔

’’کوئی نہ کوئی یہاں رہتا ضرور ہے۔‘‘ کمال نے جواب دیا۔ ’’ماہی گیر غلط کہتے تھے کہ یہ غیر آباد جزیرہ ہے۔‘‘

’’ارے۔ مگر دروازہ تو کھلا ہوا ہے۔‘‘ اشرف نے حیرت سے کہا۔

’’آجائیے، اندر آجائیے۔ میں تو برسوں سے آپ کا انتظار کر رہا ہوں۔‘‘ ایک بڑی بھاری آواز اندر سے آئی۔

’’چلیے۔ اندر چل کر تو دیکھیں کون ہے۔ کوئی ہمیں بلا رہا ہے۔‘‘ پروین نے کمال کے کان میں کہا۔

کمال نے آہستہ سے دروازہ کھولا اور پھر اس کے ساتھ ہی ایک کر کے سب اندر داخل ہو گئے۔ اندر کا منظر دیکھ کر وہ حیران رہ گئے کیونکہ اس شیشے کے کمرے میں فرنیچر بالکل نہیں تھا اور کمرہ خالی تھا۔ ان کے اندر داخل ہوتے ہی اچانک دروازہ بند ہو گیا۔ کمال نے جلدی سے آگے بڑھ کر دروازہ کھولنے کی کوشش کی مگر یہ دیکھ کر اس کی حیرت کی انتہا نہ رہی کہ دروازہ باہر سے بند ہو گیا ہے اور اب کھل نہیں سکتا۔ یکایک وہی قہقہے پھر سنائی دینے لگے۔ پہلے ان کی آواز مدھم تھی مگر اب بہت تیز تھی۔

’’یہ قہقہے کس کے ہیں کون ہنس رہا ہے؟‘‘ کمال نے چِلّا کر پوچھا۔ مگر اس کی آواز شیشے کے مکان میں گونج کر رہ گئی۔

چند منٹ کے بعد شیشے کی دیواروں کے باہر کا منظر نظر آنے لگا اور کمال نے دیکھا کہ باہر جنگل میں دھواں زمین سے اٹھ رہا ہے۔ بڑھتے بڑھتے یہ دھواں آسمان تک جا پہنچا اور پھر اس دھویں نے انسان کی شکل اختیار کر لی۔ ان لوگوں کو شیشے کے مکان میں دیکھتے ہی اس نے قہقہے لگانے شروع کر دیے۔ اس کے سر پر ایک لمبی سی چوٹی تھی جو اس کے کندھوں پر جھول رہی تھی۔

’’میں آزاد ہوں۔ میں آزاد ہوں۔ ہاہاہا۔‘‘ اس لمبے آدمی نے قہقہے لگاتے ہوئے کہنا شروع کیا ’’میں آزاد ہوں۔ اے اجنبی جانتے ہو۔ میں پانچ سو سال سے اس شیشے کی بوتل میں بندھا تھا۔ لیکن اب آزاد ہوں۔ ہاہاہا۔‘‘

’’لیکن تم ہو کون اور ہمیں اس طرح قید کرنے سے تمہارا مطلب کیا ہے؟‘‘ کمال نے پوچھا۔

’’میں جن ہوں۔ میں دنیا کا ہر وہ کام کر سکتا ہوں جو تم نہیں کر سکتے۔ پانچ سو سال پہلے ایک ماہی گیر نے مجھے ایک موٹی سی بوتل کے قید خانے میں سے نکالا تھا اور جب میں نے اسے کھانے کا ارادہ کیا تھا تو اس کمبخت نے مجھے دھوکے سے بوتل میں بند کر دیا تھا۔ میں وہی جن ہوں اجنبی۔ سمجھے۔‘‘

’’مگر یہ تو ایک من گھڑت کہانی ہے۔‘‘ پروین نے کہا۔

’’بہت سے افسانے دراصل حقیقتوں سے ہی جنم لیتے ہیں۔‘‘ جن نے کہا’’ ماہی گیر نے مجھے بوتل میں قید کیا تھا وہ پانچ سو سال کے بعد ٹوٹ گئی۔ میں پھر آزاد ہو گیا اور میں نے کچھ ایسے کام کیے جن کی بدولت مجھے بڑی طاقتوں نے پھر سے اس بوتل میں، اس جزیرے میں قید کر دیا۔ میری آزادی کی شرط یہ رکھی گئی کہ ادھر کوئی انسان اس جگہ آکر میری جگہ لے لے تو میں آزاد ہو سکتا ہوں اور اس لیے آج اے بے وقوف اجنبی تم نے مجھے آزاد کیا ہے اور اب میری جگہ تم اس بوتل کے قیدی ہو۔ ہاہا ہا۔‘‘

’’خدا کی پناہ۔ تو کیا یہ مکان بوتل کی شکل کا ہے۔‘‘ کمال نے ادھر ادھر دیکھتے ہوئے کہا۔

’’اب میں دوبارہ قیدی بننے کی غلطی نہیں کروں گا۔‘‘ جن نے کہا ’’اب دوبارہ میں قید نہیں ہوں گا۔ ہا ہا ہا۔‘‘

یہ سنتے ہی کمال کی بری حالت ہو گئی۔ اس نے دیوانوں کی طرح جلدی سے آگے بڑھ کر اس شیشے کے دروازہ پر زور کی ایک لات رسید کی مگر نتیجہ کچھ نہ نکلا۔ ہمت ہار کر وہ بے بسی سے جن کے مسکراتے ہوئے چہرے کو دیکھنے لگا۔

’’بے وقوف اجنبی۔ تم اب یہاں سے کبھی باہر نہ نکل سکو گے۔ تم زندگی بھر کے لیے قید ہو گئے ہو۔ اچھا اب میں چلتا ہوں۔ مجھے بہت سے کام کرنے ہیں۔ جب تم خود مجھ سے جانے کے لیے کہو گے اس وقت جاؤں گا۔ اس لیے مجھے اجازت دو۔‘‘

’’ابھی آپ کو اجازت نہیں مل سکتی کیونکہ آپ مجھے ایک شریف جن معلوم ہوتے ہیں۔‘‘ اختر نے حوصلہ کر کے کہا۔

’’وہ تو میں ہوں ہی۔ کون کہتا ہے کہ میں شریف نہیں ہوں۔ بھولی؟‘‘

’’اگر آپ شریف ہیں تو ٹھہریے اور میرے ایک سوال کا جواب دیجیے۔ یہ ایک پہیلی ہے۔ اگر آپ نے اس پہیلی کا ٹھیک جواب دے دیا تو ہم اپنی مرضی سے یہیں قید ہو جائیں گے اور اگر آپ نے صحیح جواب نہیں دیا تو مجھے امید ہے کہ آپ اپنی شرافت کا مظاہرہ کریں گے اور ہمیں جانے دیں گے۔ کہانیوں میں میں نے یہی پڑھا ہے کہ شریف جن قول دے کر نہیں مکرتے۔ میں آپ کو تین موقع دوں گی۔ اگر تینوں بار صحیح جواب نہ دے سکے تو آپ ہار جائیں گے۔ بولیے منظور ہے؟ آپ خاموش کیوں ہیں۔ کیا آپ ڈرتے ہیں؟‘‘

یہ سن کر جن بڑے زور سے ہنسا اور اس کی ہنسی سے جنگل کے درخت لرزنے لگے۔ اس کے بعد وہ گھٹنوں کے بل زمین پر بیٹھ گیا اور اپنا منہ شیشے کی دیوار کے پاس لاکر زور سے کہنے لگا۔ ’’میں ڈرتا ہوں! ہاہاہا۔ میں جو پوری دنیا کا مالک ہوں۔ تم جیسی ننھی سی گڑیا سے ڈر جاؤں گا۔ ہاہاہا۔ میں دنیا کا سب سے عقلمند جن ہوں۔ اپنی شرافت کا مظاہرہ کرتے ہوئے میں تمہیں اس کی اجازت دیتا ہوں کہ تم مجھ سے اپنی پہیلی پوچھو، بولو وہ کیا پہیلی ہے؟‘‘

کمال، پروین اور اشرف حیرت سے اختر کو دیکھ رہے تھے جو اتنے بڑے جن سے مقابلہ کرنے کو تیار تھی۔

’’وہ کیا چیز ہے جو پوری دنیا کو گھیرے ہوئے ہے۔ زمین پر، سمندر میں، ہوا میں، خلا میں سب جگہ موجود ہے۔ تم اسے دیکھ سکتے ہو مگر دیکھ نہیں سکتے۔ تم اسے محسوس کر سکتے ہو مگر محسوس نہیں کر سکتے۔ وہ دنیا کی بڑی سے بڑی فوج سے بھی طاقتور ہے اور اگر چاہے تو سوئی کے ناکے میں سے نکل سکتی ہے اور دنیا کا ہر انسان اسے اچھی طرح جانتا ہے بتاؤ وہ کیا ہے؟‘‘۔

جن نے یہ سن کر قہقہہ لگایا اور کہا ’’بھولی گڑیا، پہیلی کا جواب یہ ہے کہ وہ چیز ایٹم ہے۔ ایٹم ہر جگہ ہے لیکن ہم اسے دیکھ نہیں سکتے۔ صرف سائنس داں دیکھ سکتے ہیں۔ ہم اسے محسوس نہیں کر سکتے لیکن اگر کسی چیز کو چھوئیں تو محسوس کر سکتے ہیں۔ وہ دنیا کی بڑی سے بڑی فوج سے بھی طاقتور ہے اور اگر چاہیں تو سوئی کے ناکے میں سے بھی نکل سکتا ہے۔‘‘

’’بالکل غلط۔‘‘ اختر نے مسکرا کر کہا۔ ’’دنیا کے بہت سے آدمی ایٹم کو نہیں جانتے۔‘‘

یہ سن کر جن بہت گھبرایا اور بولا۔ ’’ٹھہرو، مجھے سوچنے دو، ہاں ٹھیک ہے، اب صحیح جواب مل گیا۔ وہ چیز روشنی ہے۔ روشنی ہر جگہ ہے اور ہر آدمی اسے دیکھ سکتا ہے۔ کیوں۔‘‘

’’اب بھی غلط۔ ’’اختر نے خوش ہوکر کہا۔ ’’اندھے آدمی روشنی کیسے دیکھ سکتے ہیں؟‘‘

’’بےوقوف لڑکی۔‘‘ جن نے گھبرا کر کہا۔ ’’تم مجھے نادان سمجھتی ہو اور دھوکا دینا چاہتی ہو۔ میں جانتا ہوں کہ اس پہیلی کا کوئی جواب نہیں ہے۔ اس لیے اب میں کوئی جواب نہ دوں گا۔‘‘

’’جواب کیوں نہیں ہے؟‘‘ اختر نے کہا۔ ’’اس کا جواب ہے سچ۔ سچ ہر جگہ ہے۔ تم اسے دیکھ سکتے ہو اور محسوس بھی کر سکتے ہو اگر تم سچے ہو اور اگر تم سچے نہیں ہو تو تم نہ اسے دیکھ سکتے ہو اور نہ محسوس کر سکتے ہو۔ دنیا کا ہر شخص سچ کو جانتا ہے۔ سچ دنیا کی بڑی سے بڑی فوج سے بھی طاقتور ہے اور ایک سوئی کے ناکے میں سے بھی نکل سکتا ہے۔‘‘

یہ سنتے ہی جن نے ایک زبردست قہقہہ لگایا اور کہا’’تم نے مجھ سے چالاکی سے کام لیا اور میں نے بھی تم سے۔ میں نے بھی چالاکی سے تم سے صحیح جواب معلوم کر لیا۔ تم نے مجھے تین موقعے دیے تھے اور میں نے دو ہی مرتبہ میں تم سے ٹھیک جواب حاصل کر لیا۔ کہو کیسی رہی؟ کیونکہ تم نے تیسرے موقع کا انتظار کیے بغیر ہی صحیح جواب بتا دیا اس لیے تم ہار گئیں۔‘‘

اختر تو اب چپ ہو گئی مگر کمال نے آگے بڑھ کہا۔’’یہ تمہاری کمزوری کی پہلی نشانی ہے۔ تم نے ایک بچی سے چالاکی سے ٹھیک جواب معلوم کر لیا۔ سچ جتنا بڑا ہے، تم اتنے بڑے نہیں ہو۔ میری بچی نے یہ بات ثابت کر دی ہے۔‘‘

’’بکواس مت کرو۔ میں ہر چیز سے بڑا ہوں۔‘‘ جن نے جواب دیا۔

’’غلط ہے۔ تم سچ سے بڑے نہیں ہو۔‘‘ کمال نے کہا۔ ’’سچ ایک سوئی کے ناکے میں سے نکل سکتا ہے۔ تم نہیں نکل سکتے۔ ہمارے پاس اس وقت کوئی سوئی نہیں ہے جو ہم اس کا تجربہ کریں لیکن اس دروازے میں تالے کے اندر کنجی ڈالنے کا سوراخ تو ہے۔ مجھے یقین ہے کہ سوئی کا ناکہ تو پھر چھوٹا سا ہے مگر تم اس بڑے سے سوراخ میں سے بھی نہیں گزر سکتے۔‘‘

’’یہ جھوٹ ہے۔ میں سب کچھ کر سکتا ہوں۔ سوئی کے ناکے میں سے بھی گزر سکتا ہوں اور تالے کے سوراخ میں سے بھی۔ لو دیکھو، میں دھواں بن کر ابھی تمہیں یہ تجربہ کر کے دکھاتا ہوں۔‘‘

اتنا کہتے ہی جن ہوا میں تحلیل ہونے لگا اور پھر دھواں بننے لگا۔ اس کے دھواں بنتے ہی کمال نے جلدی سے اپنی پانی کا چھاگل نکالی اور اس کی ڈاٹ کھول کر سب پانی فرش پر گرا دیا۔ جیسے ہی جن دھواں بن کر تالے کے سوراخ سے اندر آنے لگا۔ کمال نے جلدی سے چھاگل کا منہ اس سوراخ سے لگا دیا۔ جب تمام دھواں چھاگل میں چلا گیا تو کمال نے ڈاٹ مضبوطی کے ساتھ بند کر دی اور ہنس کر کہا ’’ہاں واقعی تم تالے کے سوراخ میں سے نکل سکتے ہو اور پھر چھاگل میں قیدی ہوسکتے ہو۔‘‘

’’تم نے مجھے دھوکا دیا۔ چالاکی سے مجھے بند کر دیا۔‘‘ جن نے چھاگل میں سے چلانا شروع کیا۔ ’’مجھے آزاد کرو۔‘‘

’’تم نے سچ کی بڑائی کو نہیں مانا اس لیے تم ہار گئے۔‘‘ اتنا کہہ کر کمال نے دروازے کو کھولنا چاہا تو وہ کھل گیا۔ ’’لو دروازہ بھی کھل گیا۔ اب میں تمہیں سمندر میں واپس پھینکے دیتا ہوں تاکہ تم دوبارہ باہر نکل کر کوئی نیا فتنہ نہ کھڑا کر سکو۔ تم نے ہمیں اس بوتل کا قیدی بنایا تھا۔ لیکن اب تم خود قیدی ہو گئے۔‘‘

جن التجا کرتا رہا مگر کمال نے ایک نہ سنی اور پھر باہر آکر اس نے چھاگل سمندر میں پھینک دی۔ ایک زور دار تڑاخہ ہوا اور شیشے کا وہ قید خانہ ٹکڑے ٹکڑے ہو گیا جس کی شکل بوتل کی سی تھی اور جس کا قیدی یہ چھوٹا سا کنبہ تھا۔

(مصنّف: سراج انور)

آپ کا ردعمل کیا ہے؟

like

dislike

love

funny

angry

sad

wow