اشرفیوں والا صندوق

ایک زمین دار تھا، بہت امیر۔ گاؤں کی ساری اچھّی اور زرخیز زمینیں اس کی ملکیت تھیں۔ ان زمینوں کے سرے پر ایک ٹکڑا ایسی بنجر زمین کا تھا جس میں کچھ پیدا نہ ہوتا تھا۔ زمیں دار نے سوچا، اس زمین سے کوئی فائدہ تو ہوتا نہیں، کیوں نہ اسے کسی غریب کسان کو […]

 0  3

ایک زمین دار تھا، بہت امیر۔ گاؤں کی ساری اچھّی اور زرخیز زمینیں اس کی ملکیت تھیں۔ ان زمینوں کے سرے پر ایک ٹکڑا ایسی بنجر زمین کا تھا جس میں کچھ پیدا نہ ہوتا تھا۔ زمیں دار نے سوچا، اس زمین سے کوئی فائدہ تو ہوتا نہیں، کیوں نہ اسے کسی غریب کسان کو دے کر اس پر احسان جتایا جائے۔ اگر اس کی محنت سے زمین اچھّی ہو گئی اور فصل دینے لگی تو پھر واپس لے لوں گا۔

زمین دار کے پاس بہت سے کسان کام کرتے تھے۔ ان میں سے اس نے ایک ایسا کسان چنا جس کے متعلق اسے یقین تھا کہ اگر کبھی زمین واپس لینی پڑے تو چپ چاپ واپس کر دے گا۔ زمیں دار نے کسان کو بلایا اور کہا ”میں اپنی زمین کا وہ ٹکڑا جو ٹیلے کے پاس ہے، تمہیں دیتا ہوں۔ میرا اس سے اب کوئی تعلّق نہیں۔ تم محنت کر کے اسے ٹھیک کرو۔ اس میں تم جو بھی فصل اگاؤ گے، وہ تمہاری ہو گی۔“ کسان نے زمیں دار کا شکریہ ادا کیا اور اگلے ہی دن زمین پر کام شروع کر دیا۔

اس نے ایک ہفتے لگاتار محنت کر کے زمین میں سے کنکر، پتھر اور گھاس پھونس صاف کیا اور پھر اس میں ہل چلانا شروع کیا۔ لیکن ایک جگہ ہل کسی چیز میں اٹک گیا۔ اس نے ہل روک لیا اور اس چیز کو نکالنے کے لیے اس جگہ زور سے پھاؤڑا مارا۔ جوں ہی پھاؤڑا زمین پر لگا، ایسی آواز آئی جیسے لوہا لوہے سے ٹکراتا ہے۔ وہ بڑا حیران ہوا کہ زمین کے اندر لوہے کا کیا کام! اس نے پھاؤڑا پھینک دیا اور بیلچے سے آہستہ آہستہ زمین پر سے مٹّی ہٹانے لگا۔

کوئی فٹ بھر مٹّی ہٹانے کے بعد اس نے ہاتھ سے چھو کر دیکھا تو یوں محسوس ہوا جیسے لوہے کا صندوق ہے۔ اس نے جلدی جلدی مٹّی ہٹائی۔ واقعی وہ صندوق تھا۔ اب تو اس کی دلچسپی بڑھ گئی۔ اس نے ادھر ادھر نظر دوڑائی۔ دور دور تک کوئی نہ تھا۔ اس نے صندوق کے چاروں طرف کی مٹّی کھودی اور پورے زور سے صندوق کو ہلایا۔ لیکن وہ اتنا بھاری تھا کہ ذرا بھی نہ ہلا۔ اس میں ایک موٹا سا تالا پڑا ہوا تھا۔ کسان نے پھاؤڑا تالے پر مارا تو وہ ٹوٹ گیا۔ اس نے جلدی جلدی ڈھکن اٹھایا۔ مارے حیرت کے اس کی آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں۔ صندوق میں سونے کی اشرفیاں بھری ہوئی تھیں۔ کسان کو اپنی آنکھوں پر یقین نہ آیا۔ اس نے اشرفیوں کو الٹ پلٹ کر دیکھا۔ واقعی سونے کی اشرفیاں تھیں۔ اس نے پھر ایک بار ادھر ادھر دیکھا۔ آس پاس کوئی نہ تھا۔ اس نے ایک اشرفی اٹھا کر جیب میں ڈالی، صندوق کو بند کیا اس کے اوپر مٹّی ڈال کر زمین برابر کر دی۔ آدمی سمجھدار تھا۔ اس نے سوچا اگر جلد بازی سے کام کیا تو ساری دولت ہاتھ سے جاتی رہے گی۔ وہ چپ چاپ ہل چلاتا رہا اور ساتھ ہی ساتھ سوچتا رہا کے اس صندوق کو یہاں سے لے جانے میں کس سے مدد لے۔

آخر وہ اس فیصلے پر پہنچا کہ سوائے بیوی کے اور کسی کو یہ راز نہ بتانا چاہیے۔ لیکن مشکل یہ تھی کہ اس کی بیوی پیٹ کی بہت ہلکی تھی۔ وہ جب بھی اپنی بیوی کو کوئی راز کی بات بتاتا، وہ سارے گاؤں میں اسے پھیلا دیتی۔

سوچ سوچ کر کسان نے اس کا بھی حل ڈھونڈ لیا. وہ شہر گیا اور ایک سنار کے ہاتھ اشرفی فروخت کی۔ سنار نے اسے اتنے روپے دیے کہ اس کی جیبیں بھر گئیں۔ اب وہ پکوڑوں کی دکان پر گیا اور ایک من پکوڑے خریدے۔ پکوڑے لے کر وہ اپنے کھیت میں گیا اور سارے کھیت میں پکوڑے بکھیر دیے۔ اس کے بعد وہ پھر شہر گیا اور بازار سے دو سو سموسے، ایک جھاڑو اور چار کبوتر خریدے۔ پھر ایک مزدور سے یہ سب چیزیں اٹھوا کر گھر آ گیا۔ لیکن گھر میں داخل نہ ہوا، بلکہ پچھلی دیوار سے چھت پر چڑھ کر سارا سامان رسّی میں باندھ کر اوپر کھینچ لیا۔ اس کی بیوی کو کانوں کان خبر نہ ہوئی۔

اَب کسان نے ساری چھت اور منڈیروں پر پکوڑے بکھیر دیے۔ پھر سیڑھیوں پر پکوڑے بکھیرتا ہوا نیچے آیا اور جھاڑو اور کبوتر ایک کمرے میں چھپا دیے۔
اسے دیکھتے ہی اس کی بیوی کہنے لگی ”تم کو تو بس گھر کی کچھ پروا ہی نہیں ہے۔ اس بے کار زمین پر سارا دن وقت ضائع کرتے رہتے ہو۔ میں پوچھتی ہوں، کیا ہم ہمیشہ یوں ہی بھوکے رہیں گے؟ اس زمین کو چھوڑو۔ کوئی اور کام کرو، جس سے چار پیسے ہاتھ آئیں؟“

کسان بولا، ” اری نیک بخت، ذرا صبر تو کر۔ مجھے سانس تو لینے دے۔ تھکا ہارا آ رہا ہوں، اور تو نے اوپر سے باتیں بنانا شروع کر دیں۔ لا، کچھ کھانے کو دے۔“
بیوی بولی ”کھانے کو کیا دوں ؟ گھر میں کچھ تھا ہی نہیں جو پکاتی۔ ہمسایوں کے ہاں پوچھتی ہوں۔ شاید ان کے پاس کچھ فالتو بچ رہا ہو۔“

یہ کہہ کر وہ چھت پر جانے کے لیے سیڑھی پر چڑهی تو پکوڑے دیکھ کر حیران رہ گئی۔ چھت پر پہنچی تو وہاں بھی ہر طرف پکوڑے پڑے تھے۔ وہ وہیں سے چلائی ” ارے۔۔۔! ارے۔۔۔! ادھر آؤ۔“ کسان نے کہا ”کیا ہے؟“

بیوی بولی ”دیکھو، آج ہمارے گھر پکوڑوں کی بارش ہوئی ہے۔ ذرا اوپر تو آؤ۔۔۔۔“
کسان اوپر جا کر بولا ”واقعی۔ یہ تو کمال ہو گیا۔ انہیں اکٹھا کر لو۔ ایک ہفتہ آرام سے کھائیں گے۔“

جب وہ پکوڑے کھا رہے تھے تو کسان نے کہا ”میں تمہیں ایک خوش خبری سناتا ہوں۔ لیکن شرط یہ ہے کہ یہ بات تمہارے سوا کسی اور کو معلوم نہ ہو۔“ بیوی بولی ” تم پوری تسلّی رکھو۔ میں کسی سے ذکر نہ کروں گی۔“ اس پر کسان نے بیوی کو صندوق والی بات بتا دی۔ لیکن پکوڑوں، سموسوں، جھاڑو اور کبوتروں کے بارے میں کچھ نہ بتایا۔ اتنی دولت کا خیال کر کے کسان کی بیوی کا منہ کھلے کا کھلا رہ گیا۔ وہ بولی ”چلو، ابھی اٹھا لاتے ہیں وہ صندوق۔“

کسان بولا ”کیسی باتیں کر رہی ہو۔ رات تو ہو لینے دو۔“ اندھیرا ہوا تو دونوں گھر سے باہر نکلے۔ کسان نے کہا ” پہلے تم جاؤ۔ میں تھوڑی دیر بعد آؤں گا۔“ بیوی چلی گئی تو کسان نے جلدی جلدی کبوتروں کو ذبح کیا اور ان کے خون میں جھاڑو کو خوب تر کر لیا۔ پھر بھاگ کر بیوی سے آملا۔

دونوں زمین کی طرف جا رہے تھے کہ کسان نے چپکے سے جھاڑی ہلائی، جس سے خون کے چھینٹے اڑ کر اس کی بیوی کے کپڑوں پر پڑے۔ بیوی نے کپڑے دیکھے تو بولی: ”ارے آسمان تو بالکل صاف ہے۔ تارے نکلے ہوئے ہیں۔ یہ بارش کہاں سے ہوئی ہے؟“

کسان بولا ”صاف موسم میں بارش ہو تو پانی کے بجائے خون برستا ہے۔“ یوں ہی باتیں کرتے ہوئے وہ اپنی زمین پر پہنچ گئے۔ کھیت میں قدم رکھتے ہی کسان کی بیوی چلّائی:
” ارے ارے یہ دیکھو! یہ تو سموسوں کی بارش ہوئی ہے!“ یہ کہہ کر اس نے سموسے اٹھا اٹھا کر کھانے شروع کر دیے۔ اس کے بعد دونوں نے اشرفیوں کا صندوق نکالا اور خاموشی سے گھر کی طرف چل دیے۔ راستے میں زمین دار کی حویلی پڑتی تھی۔ کسان اور اس کی بیوی حویلی کے پاس سے گزرے تو حویلی کے چوکی دار کے کراہنے کی آواز آئی۔ کسان جانتا تھا کہ چوکی دار کافی عرصے سے بیمار ہے۔ بیوی نے پوچھا:

”یہ کون رو رہا ہے؟“ کسان بولا ”سنا ہے ایک جن زمیندار کو اٹھا کر لے گیا ہے۔ اسی لیے اس کے بیوی بچّے رو رہے ہیں۔“ گھر پہنچ کر کسان نے زمین کھودی اور بیوی کی مدد سے اشرفیوں والا صندوق اس میں دبا دیا۔ صبح اٹھتے ہی کسان کی بیوی نے کسان سے مطالبہ شروع کر دیا کہ اسے اچھے اچھے کپڑے اور زیورات بنانے کے لیے کچھ اشرفیاں دے۔ لیکن کسان ڈرتا تھا کہ اگر اس طرح انہوں نے روپیہ خرچ کیا تو لوگ سوچیں گے کہ ان کے پاس اچانک اتنی دولت کہاں سے آ گئی۔ دوسرے وہ یہ بھی نہیں چاہتا تھا کہ اس کی بیوی فضول دولت اڑانی شروع کر دے۔ اس نے اشرفیاں دینے سے انکار کر دیا۔

بیوی اپنی عادت کے مطابق شوہر سے خوب لڑی اور پھر ناراض ہو کر پڑوس میں جا بیٹھی۔ کسان نے زمین میں سے صندوق نکالا اور صحن کے کونے میں نیا گڑھا کھود کر اس میں دفن کر دیا۔ شام کو کسان کی بیوی واپس آئی اور اپنے کمرے میں جا کر لیٹ گئی۔ تھوڑی دیر بعد ہمسائے کی بیوی آئی اور کسان کی بیوی نے اس سے کہا ”بہن میں تمہیں ایک بات بتاتی ہوں۔ لیکن شرط یہ ہے کہ تم اس کا ذکر کسی اور سے نہ کرنا۔“

ہمسائی نے اسے یقین دلایا کہ وہ کسی سے نہ کہے گی تو کسان کی بیوی نے اسے اشرفیوں والے صندوق کی بات بتا دی۔ عورتوں کے پیٹ میں کوئی بات نہیں ٹھہرتی۔ ہمسائی نے وہ بات کسی اور کو بتا دی، اور یوں ہوتے ہوتے یہ بات تمام گاؤں میں پھیل گئی۔ زمیندار کے کان میں بھی اس کی بھنک پڑ گئی۔

زمیندار غصّے سے بپھرا ہوا کسان کے گھر آیا اور بولا”تو بہت دھوکے باز اور بے ایمان ہے۔ میں نے تیری غربت کا خیال کر کے تجھے زمین دی۔ اس زمین میں سے اشرفیوں کا صندوق نکلا تو تجھے چاہیے تھا کہ فوراً میرے حوالے کر دیتا۔ کہاں ہے وہ صندوق؟“

کسان پہلے تو گھبرایا لیکن پھر گھبراہٹ پر قابو پاکر کہا ”حضور، میری کیا مجال کہ اتنی بڑی دولت ہاتھ آتی اور میں آپ سے چھپاتا۔ ایسی تو کوئی بات نہیں۔“

زمین دار گرج کر بولا ”سارا گاؤں اس بات کو جانتا ہے۔ تیری بیوی نے سب کو بتا دیا ہے۔ وہ خود تیرے ساتھ وه صندوق اٹھا کر لائی ہے۔ زیاده چالاکی مت کر۔ جلدی بتا، کہاں ہے وہ صندوق؟“

کسان نے زمیندار کے آگے ہاتھ جوڑ تے ہوئے کہا ”حضور یہ بڑی جھوٹی عورت ہے۔ سب جانتے ہیں کہ یہ ہمیشہ مجھ سے لڑتی رہتی ہے۔ یہ بات بھی اس نے مجھے بدنام کرنے کے لیے گھڑی ہے۔“

کسان کی بیوی، جو اب تک چپ بیٹھی تھی ایک دم برس پڑی ”کیوں جھوٹ بولتے ہو۔ اس دن مجھے ساتھ لے کر نہیں گئے تھے؟“

کسان نے کہا ”کس دن کی بات کر رہی ہو؟“

بیوی بولی ” جس دن شام کو پکوڑوں کی اور رات کو سموسوں کی بارش ہوئی تھی۔“

کسان کی بیوی کی یہ بات سن کر زمیندار نے سوچا کہ کہیں ا،س عورت کا دماغ تو نہیں چل گیا۔ کبھی پکوڑوں اور سموسموں کی بارش بھی ہوئی ہے!

کسان اپنی اسکیم کی کامیابی بہت خوش تھا۔ اس نے بیوی سے کہا ”اور کیا ہوا تھا اس دن؟“

بیوی بولی ”خون کی بارش ہوئی تھی۔ اور کیا ہونا تھا۔“

زمیندار نے کسان سے کہا ”کیسی باتیں کر رہی ہے تیری بیوی۔ خون کی بارش تو ہم نے نہ کبھی سنی نہ دیکھی۔“

کسان نے کہا ” یہ ہمیشہ ایسے ہی بَک بَک کرتی رہتی ہے۔“ پھر اس نے اپنی بیوی سے کہا ”کچھ اور یاد ہو تو وہ بھی بتاؤ۔۔۔۔“

” ہاں ہاں“ بیوی بولی ”اس دن ایک جن زمیندار صاحب کو اٹھا کر لے گیا تھا اور حویلی میں لوگ رو رہے تھے۔۔۔“

یہ سنتے ہی زمیندار کو غصّہ آ گیا۔ اس نے اپنے ملازموں سے کہا ” اس چڑیل کی خوب مرمت کرو۔ کسی جن کی جرأت ہے کہ مجھے اٹھا کر لے جائے۔ اس کم بخت نے جھوٹ بول کر غریب کسان کو ناحق بدنام کیا۔۔۔“

کسان کی بیوی بولی ”حضور، آپ اس کی باتوں میں نہ آئیں۔ میں آپ کو وہ جگہ دکھاتی ہوں جہاں ہم نے صندوق دبایا تھا۔۔۔“

زمیندار کے حکم سے ملازموں نے وہ جگہ کھودی جہاں کسان کی بیوی کے مطابق اشرفیوں کا صندوق دبایا گیا تھا۔ لیکن وہاں سے کچھ بھی نہ نکلا۔

اب تو زمیندار کو یقین ہو گیا کہ اس عورت کے دماغ میں ضرور کوئی خرابی ہے۔ وہ غصّے سے پیر پٹختا ہوا چلا گیا۔

کسان نے بیوی سے کہا ”اب کیا خیال ہے ؟ اور بتاؤ لوگوں کو یہ بات اور خوب جوتے کھاؤ۔“

بیوی اپنے کیے پر بہت شرمندہ تھی۔ اس نے شوہر سے معافی مانگی اور آئندہ کبھی گھر کی بات کسی کو نہ بتائی۔ کچھ عرصے بعد وہ دونوں گاؤں چھوڑ کر شہر چلے گئے اور وہاں ہنسی خوشی رہنے لگے۔

(یورپی ادب سے ماخوذ اس کہانی کے مترجم سیف الدّین حُسام ہیں)

آپ کا ردعمل کیا ہے؟

like

dislike

love

funny

angry

sad

wow