احمد ندیم قاسمی:‌ فکر و فن کی دنیا کی ایک معتبر شخصیت

احمد ندیم قاسمی دنیائے ادب کے ایسے قد آور تھے جن کی ادبی خدمات کا دائرہ بھی وسیع ہے اور اس کی کئی جہتیں بھی ہیں۔ آج اردو زبان کے بے مثل شاعر، ادیب، محقّق، مدیر اور اپنے وقت کے مقبول کالم نویس احمد ندیم قاسمی کی برسی ہے۔ احمد ندیم قاسمی ترقی پسند تحریک […]

 0  2
احمد ندیم قاسمی:‌ فکر و فن کی دنیا کی ایک معتبر شخصیت

احمد ندیم قاسمی دنیائے ادب کے ایسے قد آور تھے جن کی ادبی خدمات کا دائرہ بھی وسیع ہے اور اس کی کئی جہتیں بھی ہیں۔ آج اردو زبان کے بے مثل شاعر، ادیب، محقّق، مدیر اور اپنے وقت کے مقبول کالم نویس احمد ندیم قاسمی کی برسی ہے۔

احمد ندیم قاسمی ترقی پسند تحریک سے وابستہ رہے اور دو مرتبہ انھیں گرفتار بھی کیا گیا۔ 10 جولائی 2006ء کو وفات پانے والے احمد ندیم قاسمی ان شخصیات میں سے تھے جو اپنے فکر و فن کے ساتھ نصف صدی سے زائد عرصے تک ادب کی دنیا پر چھائے رہے۔

قاسمی صاحب نے 20 نومبر 1916ء کو سرگودھا کے قریب ایک گاؤں میں آنکھ کھولی۔ پرائمری تک تعلیم پانے کے بعد وہ کیمبل پور منتقل ہو گئے تھے، جو بعد میں اٹک کہلایا۔ وہیں احمد ندیم قاسمی نے میٹرک تک پڑھا۔ ان کا اصل نام احمد شاہ تھا جو دیہاتی ماحول میں رہے اور اسی نے ان کے اندر فطرت سے لگاؤ اور خوب صورت مناظر میں دل چسپی پیدا کردی تھی جس کی جھلک ہم ان کے افسانوں اور فکشن میں‌ بھی دیکھتے ہیں۔ قاسمی صاحب نے دیہات اور وہاں کی سادہ زندگی کو بڑی خوب صورتی سے اپنی کہانیوں میں سمویا ہے۔ ان کا مشاہدہ اور جزئیات نگاری ان کی کہانیوں کو شاہ کار بناتی ہیں۔

والد کا انتقال ہوچکا تھا اور اٹک میں احمد ندیم قاسمی اپنے سرپرست چچا کے ہاں مقیم تھے، جن کا تبادلہ شیخو پورہ ہوا تو وہ بھی شیخو پورہ چلے گئے اور وہاں ہائی اسکول میں میٹرک میں داخلہ لیا۔ قاسمی صاحب نے اپنے بچپن اور گھر کے حالات کا نقشہ کچھ اس طرح کھینچا ہے: ’میں نے ایک ایسے گھرانے میں آنکھ کھولی جس کے افراد اپنی روایتی وضع داری نباہنے کے لیے ریشم تک پہنتے تھے اور خالی پیٹ تک سو جاتے تھے مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ مدرسے جانے سے پہلے میرے وہ آنسو بڑی احتیاط سے پونچھے جاتے تھے جو اماں سے محض ایک پیسہ حاصل کرنے میں ناکامی پر بہہ نکلتے تھے لیکن میرے لباس کی صفائی، میرے بستے کا ٹھاٹ اور میر ی کتابوں کی ’’گیٹ اپ‘‘ کسی سے کم نہ ہوتی تھی۔ گھر سے باہر احساسِ برتری طاری رہتا تھا اور گھر میں داخل ہوتے ہی وہ سارے آبگینے چُور ہو جاتے تھے جنہیں میری طفلی کے خواب تراشتے تھے۔ پیاز، سبز مرچ یا نمک مرچ کے مرکب سے روٹی کھاتے وقت، زندگی بڑی سفاک معلوم ہونے لگتی تھی۔ والد گرامی پیر تھے۔ یادِ الہیٰ میں کچھ ایسی استغراق کی کیفیتیں طاری ہونے لگیں کہ مجذوب ہوگئے اور جن عزیزوں نے ان کی گدی پر قبضہ جمایا، انہوں نے ڈیڑھ روپیہ ماہانہ وظیفہ مقرر کیا۔ تین پیسے روزانہ کی اس آمدن میں اماں مجھے روزانہ ایک پیسہ دینے کے بجائے میرے آنسو پونچھ لینا زیادہ آسان سمجھتی تھیں۔ گھرانے کی اس عزّت کے احساس نے مجھے وقت سے پہلے حساس بنا دیا اور ممکن ہے اسی گداز نے مجھے فن کار بنایا ہو۔ اگر بچپن میں مجھے ماں کی محبت نہ ملتی تو ممکن ہے آج میں نہایت کلبی و قنوطی ہوتا۔ لیکن عالم یہ تھا کہ جب ہم بہن بھائی اپنی اماں کا ہاتھ بٹاتے، وہ چرخہ کاتتیں اور ہم پُونیاں بناتے، وہ چکی پیستیں اور ہم مل کر گیت گاتے، وہ کوٹھے کی لپائی کرتیں اور ہم سیڑھی سے چمٹے کھڑے رہتے۔ وہ زیرِ لب کوئی آیتِ کریمہ پڑھتیں اور ہم تینوں (بڑی بہن، بڑا بھائی اور ندیمؔ ) پر ’’چُھو‘‘ کرتیں اور یہ ’’چُھو‘‘ ہوتے ہی زندگی کی ڈالیاں پھولوں سے لد جاتیں۔‘‘

یہ 1931ء کی بات ہے جب تحریکِ آزادی کے عظیم راہ نما مولانا محمد علی جوہر لندن میں انتقال کر گئے اور ان کو فلسطین میں سپردِ خاک کیا گیا۔ احمد ندیم قاسمی نے مولانا جوہر پر ایک نظم لکھی، جو لاہور سے شائع ہونے والے اخبار ’سیاست‘ نے اپنے پورے صفحے پر شائع کی۔ اس طرح سے قاسمی صاحب کا نام ادبی حلقوں اور عام قارئین تک پہنچا۔ شاعری کے ساتھ اُسی دور میں وہ افسانہ نگاری کی طرف بھی آگئے۔ ’بے گناہ‘ وہ افسانہ تھا جسے معروف شاعر اختر شیرانی کے جریدے ’رومان‘ میں جگہ ملی تو مشہور افسانہ نگار سعادت حسن منٹو نے پڑھنے کے بعد اختر شیرانی سے رابطہ کر کے اس کے مصنّف کی تعریف کی اور پھر منٹو سے قاسمی صاحب کا رابطہ خط کے ذریعے ہوگیا۔ منٹو ہی کی دعوت پر قاسمی صاحب نئی دہلی گئے جہاں دونوں کے درمیان دوستی کا تعلق اُستوار ہوا۔

قاسمی صاحب کو علم و ادب کی دنیا میں پہچان ہی نہیں‌ عزّت اور بڑی پذیرائی ملی اور وہ کئی ملکوں میں اردو زبان و ادب کے حوالے سے منعقدہ تقاریب اور میلوں میں شریک ہوتے رہے۔ امریکا، جرمنی اور چین سمیت دنیا کے کئی ملکوں کے سفر کرنے والے قاسمی صاحب نے ابتدائی زمانے میں سرکاری نوکریاں‌ بھی کیں۔ پھر ریڈیو سے وابستہ ہوگئے لیکن یہ نوکری بھی چھوڑ دی۔ وہ اپنا آبائی علاقہ چھوڑ کر لاہور آچکے تھے۔ قاسمی صاحب نے نقوش کی بنیاد رکھی اور یہ ادبی رسالہ بھی ملک بھر میں مقبول ہوا۔

پاکستان میں فنون جیسے مشہور اور مقبول ادبی جریدے کی ادارت کرتے ہوئے قاسمی صاحب نے نئے لکھنے والوں کو بہت سراہا اور ان کی معیاری تخلیقات کو فنون میں‌ جگہ دی۔ احمد ندیم قاسمی کو امتیاز علی تاج نے اپنے ماہ نامہ رسالے پھول کی ادارت بھی سونپی تھی۔ پھول بچوں کا رسالہ تھا اور قاسمی صاحب بچّوں کا ادب تخلیق کرنے میں‌ بھی پیچھے نہ رہے، انھوں نے بچّوں کے لیے بہت سی نظمیں لکھیں اور کہانیاں بھی۔

وہ پچاس سے زائد نثری اور شعری کتابوں کے خالق تھے۔ شاعری اور فکشن نگاری کے علاوہ انھوں نے تحقیقی اور تنقیدی کام بھی کیا اور تراجم کی طرف بھی توجہ دی۔ ان کی کتابوں کی فہرست طویل ہے جن میں‌ چند نام یہ ہیں:‌ افسانہ اور کہانیوں پر مشتمل چوپال، بگولے، طلوع و غروب جب کہ شعری مجموعے دھڑکنیں، رِم جھم، جلال و جمال، شعلۂ گل، دشتِ وفا اور تحقیق و تنقید کے موضوعات پر کتابوں‌ میں تہذیب و فن، ادب اور تعلیم کے رشتے، علّامہ محمد اقبال اور اسی طرح‌ میرے ہم قدم شخصی خاکے کا مجموعہ تھا جب کہ فکاہیہ کالم اور مزاحیہ مضامین بھی کتابی صورت میں‌ شایع ہوئے۔ بلاشبہ احمد ندیم قاسمی نے اپنی شخصیت اور فن کی بدولت اردو زبان و ادب پر اپنا گہرا نقش چھوڑا۔

آپ کا ردعمل کیا ہے؟

like

dislike

love

funny

angry

sad

wow