کون جعلی سکّوں پر اپنی نیت خراب کرے؟

تقسیمِ ہند سے قبل کا دلّی زبان و ادب ہی نہیں زبان کے چٹخاروں کے لیے بھی مشہور تھا۔ یہاں کے پکوان کی طرح تہذیب و ثقافت کا بھی ہندوستان بھر میں چرچا تھا۔ لیکن ہر قوم اور شہر میں کچھ بد اطوار یا جرائم پیشہ بھی ضرور ہوتے ہیں اور یہ ایک عام بات […]

 0  3
کون جعلی سکّوں پر اپنی نیت خراب کرے؟

تقسیمِ ہند سے قبل کا دلّی زبان و ادب ہی نہیں زبان کے چٹخاروں کے لیے بھی مشہور تھا۔ یہاں کے پکوان کی طرح تہذیب و ثقافت کا بھی ہندوستان بھر میں چرچا تھا۔ لیکن ہر قوم اور شہر میں کچھ بد اطوار یا جرائم پیشہ بھی ضرور ہوتے ہیں اور یہ ایک عام بات ہے۔ دلّی میں بعض ٹھگ، لٹیرے، اور نوسر باز بھی مشہور تھے اور جہاں‌ دلّی کی تہذیب و ثقافت کے بارے میں بڑے ادیبوں نے بہت کچھ لکھا ہے، وہیں ان ٹھگوں اور لوٹ مار کرنے والوں کے بعض دل چسپ واقعات بھی ان کی کتابوں میں پڑھے جاسکتے ہیں۔

بازاروں میں اور ان مقامات پر جہاں بہت سے لوگ جمع ہوتے ہوں اکثر جیب کترے بھی موجود ہوتے ہیں جو ہاتھ کی صفائی اس طرح دکھاتے کہ لٹنے والے کو احساس تک نہیں ہوتا اور وہ نقدی سے محروم ہوجاتا۔ وہ یہ کام بڑی مہارت اور باریکی سے کرتے کہ ذرا چوک ہوئی نہیں اور بھرے بازار میں لوگوں کے ہاتھوں پٹائی اور پھر قانون کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ دلّی میں کئی جیب کترے موجود تھے جو انفرادی اور گروہ کی شکل میں لوگوں کی جیب کاٹنے کو نکلتے تھے۔ یہ جیب تراش اپنا ‘فن’ اپنی اولاد اور شاگردوں کو منتقل کرتے تھے اور ان کو باقاعدہ اس کی تربیت دیتے تھے۔ ان میں سے بعض اس کام میں اس قدر ماہر اور نامی گرامی تھے کہ لوگوں میں اگرچہ عزّت نہ تھی، مگر ان کا نام لے کر ان کے اس ‘ہنر’ کا ذکر کیا جاتا تھا۔ یہ بڑے فن کار قسم کے لوگ تھے۔چالاک اور نہایت پھرتیلے۔ ایسے جیب کتروں کا شہرہ سن کر ان کو آزمانے کے لیے ایک صاحب دلّی چلے آئے اور چند دن بعد ان کو اپنی معلوم ہوا کہ جیب کتروں نے انھیں تاڑ تو رکھا تھا، لیکن ان کی جیب نہ کاٹی۔ اس کی وجہ کیا تھی؟ یہ جاننے کے لیے اخلاق احمد دہلوی کی کتاب ’’پھر وہی بیان اپنا‘‘ سے یہ اقتباس ملاحظہ کیجیے۔

"دہلی میں ایک جیب کترے تھے جن کا انگوٹھا قینچی کے پھل کی طرح دو دھارا تھا اور کلمے کی انگلی پتھر پر گھس گھس کر شیشے کی مانند سخت کرلی تھی۔ بس جہاں ان کی انگلی لگ جاتی تو قینچی کو پیچھے چھوڑ دیتی تھی۔ ایک صاحب کوئی باہر کے، خواجہ حسن نظامی کے ہاں آئے اور شکایت کی۔”

’’دہلی کے جیب کترے کی بڑی دھوم سنی تھی۔ آج ہمیں دہلی کے بازاروں میں پھرتے چار دن ہوگئے ہیں لیکن کسی کو مجال نہیں ہوئی کہ ہماری جیب کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی دیکھ لیں۔‘‘

"خواجہ صاحب نے اس چٹکی باز کو بلوایا اور ان صاحب سے اس چٹکی باز کا آمنا سامنا کرایا۔ اس ہنرمند نے مسکرا کر کہا۔”

’’خواجہ صاحب! میرے شاگردوں نے ان صاحب کا حلیہ بتایا تھا۔ چار دن سے انگرکھے کی اندر کی جیب میں پیتل کی آٹھ ماشیاں (آٹھ ماشا وزن کے سکے) ڈالے گھوم رہے ہیں اور وہ بھی گنتی کے چار۔ اب آپ ہی بتائیے کہ کون جعلی سکوں پر اپنی نیت خراب کرے گا۔‘‘

آپ کا ردعمل کیا ہے؟

like

dislike

love

funny

angry

sad

wow