ظہورِ اسلام کے بعد مدینے میں پہرے کا مربوط نظام

نفاق سے مراد ہے، ’’دل میں برا ارادہ یا شرارت رکھنا، مگر اس کو ظاہر نہ ہونے دینا اور زبان سے خیر کے کلمات نکالتے رہنا تاکہ سامنے والا غفلت اور دھوکے میں رہے۔‘‘ اسلام کے ابتدائی زمانے کی بات کی جائے تو نفاق یہ تھا کہ دل میں کفر پر قائم رہنا اور زبان […]

 0  2
ظہورِ اسلام کے بعد مدینے میں پہرے کا مربوط نظام

نفاق سے مراد ہے، ’’دل میں برا ارادہ یا شرارت رکھنا، مگر اس کو ظاہر نہ ہونے دینا اور زبان سے خیر کے کلمات نکالتے رہنا تاکہ سامنے والا غفلت اور دھوکے میں رہے۔‘‘ اسلام کے ابتدائی زمانے کی بات کی جائے تو نفاق یہ تھا کہ دل میں کفر پر قائم رہنا اور زبان سے اسلام کا اعلان کرنا۔

مدینہ منورہ میں اسلام کا نور پھیلنے کے بعد وہاں منافقین کی بڑی تعداد بھی سامنے آتی رہی۔ یہ اس وقت ہوا جب مسلمان مدینہ میں مضبوط ہوچکے تھے اور مخالفین ان کی طاقت سے ڈرنے لگے۔ علماء بتاتے ہیں‌ کہ منافقین سے متعلق جتنی بھی آیات نازل ہوئیں، وہ سب کی سب مدنی ہیں، کیوں کہ مکّے میں تو جن لوگوں نے اسلام قبول کیا تھا وہ صدقِ دل سے اس پر قائم ہوچکے تھے اور موقع کے منتظر تھے کہ غلبہ حاصل کرکے اسلام قبول کرنے کا اعلان کریں۔ دوسری طرف مشرک اور کافر بھی اپنے کفر و شرک میں ظاہر اور کھلے ہوئے تھے۔ جنگِ بدر کے نتیجے میں مسلمانوں کا رعب و دبدبہ قائم ہوا، تو منافقین بھی سامنے آئے۔ (تاریخِ مدینۂ منورہ)۔

ان منافقین کا سردار عبداللہ بن اُبی ابن سلول تھا۔ اس کی اسلام اور اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ دشمنی کی ایک بڑی وجہ یہ تھی کہ ایک جنگ کے خاتمے کے بعد مشہور قبائل اوس اور خزرج کے لوگ اس شخص کو مدینے کا حاکم بنانے والے تھے، لیکن حضوراکرم کی مدینہ تشریف آوری سے یہ ممکن نہ ہوسکا۔ اُسے اس بات کا سخت صدمہ ہوا اور وہ سمجھتا تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے آنے سے اُس کی بادشاہی چھن گئی ہے۔

ان منافقین کے کھلم کھلا سامنے آنے کے بعد مدینے میں‌ دفاع اور عسکری تربیت کی ضرورت محسوس کی گئی۔

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو تواتر کے ساتھ یہ اطلاعات موصول ہو رہی تھیں کہ قریش، مدینے پر ایک بھرپور حملے کی تیاریوں میں مصروف ہیں۔ چناں چہ آپؐ نے انصار و مہاجرین کے چھوٹے چھوٹے گروپ بنا کر اُن کی عسکری تربیت کا آغاز کیا۔ دفاعی نقطۂ نظر سے قدرت نے مدینۂ منورہ کے گرد ایک حفاظتی حصار بنایا ہوا تھا۔ مدینے کے تین اطراف یا تو پہاڑیاں تھیں یا گنجان آبادیاں اور باغات۔ صرف شمال کی جانب سے شہر میں داخل ہوا جاسکتا تھا، جب کہ مکّہ جنوب میں واقع تھا۔ چناں چہ جنوب سے شمال کی جانب آکر حملہ کرنا نہایت دشوار، پیچیدہ اور خطرناک تھا۔

حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک تجربہ کار جنگجو سپہ سالار کی طرح مسلّح دستے بنائے اور ان کو سرحدی علاقوں میں گشت اور پہرے کا ایک مربوط نظام دے کر ہر دستے کا سربراہ یا کمانڈر بھی مقرر فرما دیا۔ تاریخ‌ میں‌ ہے کہ اس وقت سپاہیوں اور دستوں کی شناخت کے لیے خفیہ الفاظ و اشارات بھی استعمال کیے جاتے تھے۔ ان دستوں نے جب اپنے کمانڈر کی زیر کمان سرحدی علاقوں پر گشت شروع کیا، تو گرد و نواح کے قبائل، جو خود کو جنگ میں‌ ماہر سمجھتے تھے، بڑے مرعوب و متعجب ہوئے۔ انھوں نے اس قدر منظّم فوجی دستے زندگی میں پہلی بار دیکھے تھے۔ اس سے ان کو یہ احساس ہوا کہ مدینے میں واقعی ایک منظّم اسلامی ریاست وجود میں آچکی ہے۔ (ماخوذ: سیرت رحمۃُ للّعالمین)۔

حجرۂ رسول پر صحابہؓ کا پہرا بھی ایک اہم اور تاریخی واقعہ ہے کہ اس وقت عبداللہ بن اُبی کی ناکامی نے جنگجو کفّار مکّہ کو مزید مشتعل کر دیا تھا۔ یہ اطلاعات تھیں‌ کہ وہ مسلمانوں کو یثرب میں داخل ہوکر نشانِ عبرت بنانے کا ارادہ کرچکے ہیں۔ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اہلِ قریش کی انتقامی سوچ اور ان کے برے ارادوں کا اندازہ تھا۔ اسی خدشے کے پیشِ نظر صحابہ کرام عموماً رات میں آپ صلّی اللہ علیہ وسلّم کے حجرے کے باہر پہرا دیا کرتے تھے۔ اُمّ المؤمنین سیّدہ عائشہؓ بیان فرماتی ہیں کہ مدینہ ہجرت کے بعد ایک رات حضور صلی اللہ علیہ وسلم حالتِ بے داری میں تھے۔ جب آپ صلّی اللہ علیہ وسلّم نے فرمایا ’’کاش! آج کی رات میرے صحابہؓ میں سے کوئی یہاں پہرا دیتا۔‘‘ وہ فرماتی ہیں کہ ’’ابھی زبانِ مبارک سے یہ الفاظ ادا ہی ہوئے تھے کہ ہمیں تلوار کی جھنکار سنائی دی۔ آپ صلّی اللہ علیہ وسلم نے با آوازِ بلند فرمایا ’’کون ہے؟‘‘ جواب آیا ’’اے اللہ کے رسول میں سعد بن ابی وقاصؓ ہوں۔‘‘ فرمایا ’’سعد! کیسے آنا ہوا؟‘‘ انھوں نے جواب دیا، ’’یارسول اللہ صلّی اللہ علیہ وسلم! میرے دل میں آپ کے حوالے سے خطرے کا اندیشہ ہوا، تو میں پہرا دینے کے لیے چلا آیا۔‘‘ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ سن کر انھیں دعائیں‌ دیں اور اطمینان سے محوِ استراحت ہوگئے۔ (صحیح بخاری)۔

اور پھر وہ وقت آیا جب اللہ تعالیٰ نے حفاظت کی ذمّے داری لے لی۔ اس باب میں سیّدہ عائشہ فرماتی ہیں کہ ’’صحابہؓ ہر رات حضور کے حجرے کے باہر پہرا دیا کرتے تھے۔ یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے وحی نازل فرمائی ’’واللہ یعصمک من النّاس‘‘ (سورۃ المائدہ، آیت۔67)۔ ترجمہ:’’اور اللہ آپ کو لوگوں سے بچائے رکھے گا۔‘‘ اس حکم کے بعد نبی کریم نے حجرے سے سَر باہر نکالا اور فرمایا ’’لوگو! اب تم واپس چلے جاؤ، کیوں کہ اللہ نے میری حفاظت کی ذمّے داری خود لے لی ہے۔‘‘ (جامع ترمذی)۔

آپ کا ردعمل کیا ہے؟

like

dislike

love

funny

angry

sad

wow