جاپانی ہندوستان پر حملہ نہیں کریں گے!
ہندوستان پر جاپان کے امکانی حملے کے پیش بندی کے طور پر میں نے پہلے ہی کچھ اقدامات کر لیے تھے۔ کانگریس کی تنظیم سے میں نے کہا تھا کہ جاپانیوں کے خلاف عوامی مزاحمت کی تعمیر کے لیے اُسے پروپیگنڈے کی ایک مہم چلانی چاہیے۔ میں نے کلکتہ کو مختلف وارڈوں میں تقسیم کرایا […]
ہندوستان پر جاپان کے امکانی حملے کے پیش بندی کے طور پر میں نے پہلے ہی کچھ اقدامات کر لیے تھے۔ کانگریس کی تنظیم سے میں نے کہا تھا کہ جاپانیوں کے خلاف عوامی مزاحمت کی تعمیر کے لیے اُسے پروپیگنڈے کی ایک مہم چلانی چاہیے۔
میں نے کلکتہ کو مختلف وارڈوں میں تقسیم کرایا تھا اور رضا کاروں کے جتھے، جنہوں نے جاپان کی مخالفت کا عہد کر رکھا تھا ان کی تربیت اور تنظیم شروع کر دی تھی۔ ان رضا کاروں کو یہ ہدایت دی گئی تھی کہ اگر جاپانی فوج پیش قدمی کرے، تو اس کے راستے میں ہر ممکن رکاوٹ کھڑی کرنا ہوگی۔ میرے ذہن میں یہ اسکیم تھی کہ جیسے ہی جاپانی فوج بنگال پہنچے اور برطانوی فوج پیچھے ہٹے، کانگریس کو اپنے رضا کاروں کی مدد سے آگے بڑھ کر ملک کا کنٹرول سنبھال لینا چاہیے۔ اس سے پہلے کہ جاپانی اپنے قدم جما سکیں، بیچ کے وقفے میں ہمیں اقتدار پر قابض ہو جانا چاہیے۔ صرف اسی طرح ہم اپنے نئے دشمن کا مقابلہ کر سکتے تھے اور اپنی آزادی حاصل کر سکتے تھے۔
درصل مئی اور جون 1942ء میں میرے وقت کا بیش تر حصہ اس نئی تدبیر کو آگے بڑھانے اور اس پر عمل پیرا ہونے میں صرف ہوا۔ میں یہ دیکھ کر حیران ہوا کہ گاندھی جی مجھ سے متفق نہیں تھے۔ انہوں نے دو ٹوک لفظوں میں مجھ سے کہا کہ اگر جاپانی فوج کبھی ہندوستان آ ہی گئی، تو وہ ہمارے دشمن کے طور پر نہیں، بلکہ انگریزوں کے دشمن کے طور پر آئے گی۔ ان کا خیال تھا کہ اگر انگریز چلے گئے، تو جاپانی ہندوستان پر حملہ نہیں کریں گے۔ میں اس تجزیے کو تسلیم نہیں کرسکا اور طویل بحثوں کے باوجود ہم کسی مفاہمت پر نہیں پہنچ سکے، چناں چہ ہم اختلاف کے ایک نوٹ کے ساتھ ایک دوسرے سے الگ ہو گئے۔
(از قلم: مولانا ابوالکلام آزاد)
آپ کا ردعمل کیا ہے؟