اگر کوئی شخص بلیک ہول میں گرے گا تو کیا ہوگا؟ ناسا نے ناقابل یقین ویڈیو بنا لی

امریکی خلائی ادارے ناسا نے ایک ایسی ناقابل یقین ویڈیو بنائی ہے، جس میں یہ دکھایا گیا ہے کہ اگر کوئی شخص بلیک ہول میں گرے گا تو کیا ہوگا؟ انسان جب اپنی زندگی اور کائنات کے بارے میں غور و فکر کرتا ہے تو ایک خیال اسے ضرور پریشان کرتا ہے کہ اگر بدقسمتی […]

 0  8
اگر کوئی شخص بلیک ہول میں گرے گا تو کیا ہوگا؟ ناسا نے ناقابل یقین ویڈیو بنا لی

امریکی خلائی ادارے ناسا نے ایک ایسی ناقابل یقین ویڈیو بنائی ہے، جس میں یہ دکھایا گیا ہے کہ اگر کوئی شخص بلیک ہول میں گرے گا تو کیا ہوگا؟

انسان جب اپنی زندگی اور کائنات کے بارے میں غور و فکر کرتا ہے تو ایک خیال اسے ضرور پریشان کرتا ہے کہ اگر بدقسمتی وہ کسی بلیک ہول میں گرنے والا ہو تو اس وقت کیا ہوگا۔ ناسا نے آخرکار اپنے سپر کمپیوٹر کا استعمال کرتے ہوئے ایک شان دار نقل (سیمولیشن) تیار کر کے اس سوال کا جواب دے دیا ہے۔

ایونٹ ہورائزن کیا ہے؟

بلیک ہول کی سطح کو ایونٹ ہورائزن (event horizon) کہا جاتا ہے، اس میں وہ تمام مادے شامل ہوتے ہیں جن سے بلیک ہول بنتا ہے اور اتنا مضبوط ہوتا ہے کہ اس میں سے روشنی بھی گزر نہیں پاتی۔ اس ایونٹ ہورائزن میں اگر کوئی ٹھوس چیز گرے گی تو کیا ہوگا، یہ دکھانے کے لیے ناسا نے ایک نئے اور عمیق تمثال (visualization) پر مبنی ایک ویڈیو بنائی ہے، ناظرین جس میں دیکھ سکتے ہیں کہ گرتے وقت ناقابل واپسی نقطے (پوائنٹ آف نو ریٹرن) پر کیا دکھائی دیتا ہے۔

امریکی ریاست میری لینڈ میں ناسا کے گوڈارڈ اسپیس فلائٹ سینٹر کے سائنس دانوں نے یہ سیمولیشن اپنے ایک انتہائی طاقت ور سپر کمپیوٹر کا استعمال کرتے ہوئے تیار کی ہے۔

اس پروجیکٹ نے تقریباً 10 ٹیرا بائٹس ڈیٹا تیار کیا اور اسے کمپیوٹر کے 1 لاکھ 29 ہزار پروسیسرز کے صرف 0.3 فی صد حصے پر چلنے میں تقریباً 5 دن لگے، ایک عام لیپ ٹاپ پر اسے چلنے میں دس سال سے زیادہ وقت لگے گا۔

یہ تمثیل (visualization) کیا ہے؟

ناسا نے جو یہ تمثیل تخلیق کی ہے، اس میں ایک عظم الجثّہ (supermassive) بلیک ہول کی جانب ایک پرواز دکھائی گئی ہے، اس سفر کے دوران راستے میں ایسی دل چسپ شبیہیں پیدا ہوتی ہیں جو (آئن اسٹائن کے) عمومی نظریہ اضافیت (general relativity) کے اثرات کا نتیجہ ہیں۔

اس میں آپ کو ایک کیمرہ نظر آئے گا جو چلتے چلتے ایک مختصر چکر لگاتا ہے، اور پھر ہماری کہکشاں کے مرکز میں موجود بلیک ہول (سورج سے تقریباً 43 لاکھ گنا بڑا) جتنے بڑے عفریت نما بلیک ہول کے ایونٹ ہورائزن (ناقابل واپسی نقطہ) کو پار کر لیتا ہے۔

اس نقل (simulation) میں جو صورت حال دکھائی گئی ہے، اس کا تصور کرنا بھی انسان کے لیے مشکل ہے، لیکن دستیاب علم اور ٹیکنالوجی کی مدد سے ناسا نے اسے کافی حد تک ممکن بنایا، چناں چہ ناسا کے گوڈارڈ اسپیس فلائٹ سینٹر کے ماہر فلکیات جیریمی شنٹمین کے مطابق انھیں اس سیمولیشن کے ذریعے اس حوالے سے مدد ملی ہے کہ نظریۂ اضافیت کی ریاضی کو حقیقی کائنات کے حقیقی نتائج سے کیسے جوڑا جائے۔

انھوں نے بتایا ’’میں نے دو مختلف خاکوں کی نقلیں تیار کیں، ایک خاکے میں کیمرا (کسی بہادر خلاباز کی طرح) ایونٹ ہورائزن یعنی بلیک ہول کی سطح سے بال بال بچ کر کششِ ثقل کے دھکے سے واپس آ جاتا ہے، اور دوسرے میں یہ کیمرا اپنے مقدر پر مہر لگاتے ہوئے باؤنڈری کو عبور کر لیتا ہے۔‘‘

ناسا کے مطابق سیمولیشن میں دکھائے گئے بلیک ہول کی سطح یعنی ایونٹ ہورائزن کی پیمائش تقریبا ڈھائی کروڑ کلومیٹر (1.6 کروڑ میل) ہے، اس کے گرد گیس کی ایک گرم اور چمک دار ڈسک (اضافی تہہ) بنی ہوئی ہے، ان چمک دار ساختوں کو فوٹون رِنگ کہا جاتا ہے، یہ اُس روشنی سے بنتے ہیں جو بلیک ہول کے گرد ایک بار زیادہ بار چکر لگاتی ہے۔

جیسے جیسے کیمرہ بلیک ہول کے قریب پہنچتا ہے، ویسے ویسے کیمرے کی رفتار روشنی کی رفتار جتنی ہوتی جاتی ہے، سیمولیشن میں دکھائی جانے والی اس مووی کا آغاز اس وقت ہوتا ہے جب کیمرہ بلیک ہول سے 640 ملین کلو میٹر دور ہے، قریب آتے آتے بلیک ہول کے گرد موجود چمک دار ڈسک، نارنجی اور پیلے رنگ کے فوٹون رِنگز، اور رات کے آسمان کی شکل تیزی سے بگڑتی ہے، اور حتیٰ کہ ان کی روشنی جب تیزی سے ٹیڑھے میڑے ہوتے زمان و مکان (space-time) میں داخل ہوتی ہے تو گوناں گوں عکس تشکیل پاتے ہیں۔

زمان و مکان کے ساتھ کیا ہوتا ہے؟

یہ سیمولیشن تیار کرنے والے ماہرین کا کہنا ہے کہ کیمرے کو بلیک ہول کی سطح میں گرنے کے لیے 3 گھنٹے لگے، راستے بھر اس نے 30 منٹ کے تقریباً دو مکمل محوری چکر لگائے۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ دور سے اگر کوئی اسے دیکھے تو وہ یہی سمجھے گا کہ کیمرہ کبھی وہاں پہنچ ہی نہیں سکا۔ کیوں کہ بلیک ہول کی سطح سے قریب ہوتے ہوتے زمان و مکان زیادہ فولڈ (یا ٹیڑھا میڑا) ہو جاتا ہے، اس لیے کیمرے کا عکس سست ہو جائے گا اور پھر بالکل ہی منجمد ہو جائے گا۔ یہی وجہ ہے کہ ماہرین فلکیات بلیک ہولز کو ’منجمد ستارے‘ کہا کرتے ہیں۔

بلیک ہول کی سطح پر خود زمان و مکان بھی روشنی کی رفتار (یعنی کائناتی رفتار کی حد) سے اندر کی طرف بہنے لگتا ہے، جیسے ہی وہ اس کے اندر داخل ہوتے ہیں، کیمرا اور زمان و مکان دونوں بلیک ہول کے مرکز کی طرف تیزی سے بڑھتے ہیں۔ یہ مرکز ’ون ڈائمنشنل پوائنٹ‘ (یک جہتی نقطہ) ہے جسے سنگولیریٹی (singularity) کہا جاتا ہے، اور اس میں فزکس کے قوانین (ہمارے علم کے مطابق) کام کرنا چھوڑ دیتے ہیں۔

اسپگیٹیفیکیشن کیا ہے؟

ڈاکٹر شنٹمین کے مطابق ایک بار جب کیمرہ بلیک ہول کی سطح کو عبور کر لیتا ہے تو اسے تباہ ہونے میں محض 12.8 سیکنڈ کا وقت لگتا ہے، اور یہ عمل spaghettification کہلاتا ہے۔ ایک ایسا عمل جس میں جسم سوئیوں کی طرح لمبا ہوتے ہوتے پتلا ہو جاتا ہے۔ اس موقع پر یہ مرکز سے 79 ہزار 500 میل دور ہوتا ہے، اور اس سفر کا یہ آخری لمحہ محض پلک جھپکتے پورا ہو جاتا ہے۔

سوئیوں جیسا یہ عمل اس لیے ہوتا ہے کیوں کہ کسی بھی جسم کا وہ سرا جو بلیک کے قریب ہوتا ہے، اس کا کشش ثقل اُس دوسرے سرے سے جو بلیک ہول دور ہوتا ہے، میں بہت فرق ہوتا ہے، چناں چہ دونوں طرف کا کشش ثقل اس جسم کو اپنی اپنی طرف کھینچتے ہیں اور یوں وہ سوئیوں کی طرح لمبا ہوتا چلا جاتا ہے۔


آپ کا ردعمل کیا ہے؟

like

dislike

love

funny

angry

sad

wow