گلاب سنگھ: ’ایشیا کا سب سے بڑا بدمعاش‘

تاریخ کے وہ ابواب جن میں قوم اور برادری کا فخر اور برتری کا احساس غالب رہا ہے، کئی مغالطوں اور طرح طرح کے پروپیگنڈے سے بھرے پڑے ہیں، اور جس طرح‌ حکم رانوں نے اپنے اقتدار کو طول دینے اور سیاسی مفادات کی تکمیل کے لیے ہر جائز اور ناجائز راستہ اپنایا، اسے بھی […]

 0  10
گلاب سنگھ: ’ایشیا کا سب سے بڑا بدمعاش‘

تاریخ کے وہ ابواب جن میں قوم اور برادری کا فخر اور برتری کا احساس غالب رہا ہے، کئی مغالطوں اور طرح طرح کے پروپیگنڈے سے بھرے پڑے ہیں، اور جس طرح‌ حکم رانوں نے اپنے اقتدار کو طول دینے اور سیاسی مفادات کی تکمیل کے لیے ہر جائز اور ناجائز راستہ اپنایا، اسے بھی چھپانے کی کوشش کی جاتی ہے، لیکن حقائق کو پوری طرح مسخ نہیں تو بہرحال نہیں کیا جاسکتا۔ ریاست جموں‌ و کشمیر کا معاملہ کچھ ایسا ہی ہے جہاں ہندوستان پر قبضہ کرنے کے بعد انگریزوں نے اپنی مفاد کے لیے وہ سب کیا جس میں عوام کو بدترین حالات سے دوچار ہونا پڑا۔ آج کے دن اسی علاقہ جموں کا راجہ گلاب سنگھ چل بسا تھا جو عوام پر اپنے ظلم و ستم کے لیے مشہور ہے۔

سکھ سلطنت کے مہاراجہ رنجیت سنگھ نے ہندو ڈوگرا برادری کے گلاب سنگھ کو اس کی خدمات کے عوض جموں کا راجہ بنا دیا تھا۔ یہ سنہ 1822ء کی بات ہے۔ بعد میں گلاب سنگھ نے کئی علاقوں پر اپنا تسلط قائم کرلیا جن میں راجوری، پونچھ، بدرواہ اور کشتوار اور کئی دوسرے علاقے شامل ہیں۔

جب برطانوی ایسٹ انڈیا کمپنی نے پنجاب میں بھی قدم جما لیے تو گلاب سنگھ کو مہاراجہ بنا دیا گیا اور 1846ء میں معاہدۂ امرتسر کے تحت پچھتر لاکھ روپے میں کشمیر بھی اس کو دے دیا۔ یوں جموں و کشمیر کے مہاراجہ بن جانے والے گلاب سنگھ کو اپنے ہی لوگوں پر ظلم ڈھانے کا موقع ملا گیا۔ وہ اپنی سفاکی اور قتل و غارت گری میں اس حد تک بڑھ گیا کہ رعایا کے ساتھ غیر انسانی سلوک روا رکھا اور لوگوں سے زندہ رہنے کا حق بھی چھین لیا۔

گلاب سنگھ کے دور میں جبر اور لوگوں پر مظالم کا ذکر ایسٹ انڈیا کمپنی کے گورنر جنرل سَر ہنری ہارڈنج نے اپنے ایک خط میں کیا جو اس نے دو مارچ 1846 کو اپنی بہن کے نام لکھا تھا۔ اس خط میں وہ گلاب سنگھ کو ’ایشیا کا سب سے بڑا بدمعاش‘ لکھتے ہوئے بہن کو بتاتا ہے کہ گلاب سنگھ کو مہاراجہ بنانے کی وجہ کیا رہی اور اسے انگریز سرکار کی بدقسمتی لکھا ہے۔ اس مکتوب میں گورنر جنرل نے رقم کیا: ’بدقسمتی سے ان کی مدد کرنا لازمی ہے کیونکہ انھوں نے ہمارے خلاف جنگ میں حصہ نہیں لیا اور ان کی سرحدیں ہماری سرحدوں سے ملتی ہیں، ہم بغیر کسی مشکل ان کی حفاظت کر سکتے ہیں اور سکھوں کی سلطنت میں سے انھیں ایک ٹکڑا دے کر سکھوں کے مقابلے میں ان کی طاقت کو تھوڑا بڑھا سکتے ہیں۔‘

گلاب سنگھ اور ان کی ڈوگرا سلطنت سو برس سے زیادہ عرصہ قائم رہی جو بادشاہت پر مبنی مطلق العنان طرزِ حکومت تھا۔ برطانیہ میں بھی کشمیر کو ڈوگرا راجہ کے ہاتھوں‌ فروخت کرنے پر کڑی تنقید کی گئی تھی، کیوں کہ اس رقم کی وصولی کے لیے راجہ نے عام کشمیریوں پر بہت بھاری ٹیکس لگایا اور وصولی کے لیے ہر طرح کا جبر، زبردستی اور مظالم کیے گئے۔ ظالمانہ ٹیکس نظام کے ساتھ ساتھ ڈوگرا دور میں بیگار لینے کا بھی سلسلہ شروع ہوگیا جس پر انگریز افسران نے بھی کڑی تنقید کی۔

ہندوستان میں‌ برطانوی فوج کے ایک افسر رابرٹ تھورپ نے اس وقت لکھا تھا کہ اس ناانصافی سے ’جدید تہذیب کی روح کی نفی ہوتی ہے اور اُس مذہب کے ہر اصول کے بالکل الٹ ہے جس کے پیروکار ہونے کا ہم دعوی کرتے ہیں۔‘

گلاب سنگھ، جو اپنے پایۂ تخت لاہور میں موجود رنجیت سنگھ کا ایک منتظم کی حیثیت سے اعتماد حاصل کر چکا تھا، اب جمّوں کا راجا بنا دیا گیا۔ اس کا باپ رنجیت سنگھ کی جانب سے جمّوں کا منتظم رہا تھا اور گلاب سنگھ نے اپنے باپ ہی سے انتظامی امور اور سیاست سیکھی تھی۔ اسی کی موت کے بعد یہ اختیار گلاب سنگھ کو سونپا گیا تھا اور وہ کام یاب منتظم ثابت ہوا۔ بعد میں جہاں اس نے اپنے مربّی کے خلاف سازشیں کیں، وہیں انگریزوں‌ سے وفا کر کے اپنی سلطنت قائم کرنے میں بھی کام یاب رہا۔

گلاب سنگھ ڈوگرا کا سنہ 1792ء بتایا جاتا ہے۔ جمّوں‌ میں پیدا ہونے والا گلاب سنگھ 30 جون 1857ء کو چل بسا تھا۔ کشمیر کی سرسبز وادی کا حسن پائمال کرنے اور لوگوں کی زندگی اجیرن کر دینے والے اس حکم راں کو انگریز انتظامیہ کے افسران اور برطانوی امراء نے بھی ظالم کہا اور برطانوی مؤرخین نے بھی اس کی سفاکیوں کو رقم کیا۔

علّامہ اقبال اور اس وقت کے دیگر مسلم اکابرین بھی گلاب سنگھ کے رعایا پر ظلم اور بالخصوص کشمیری مسلمانوں‌ کے ساتھ وہاں ہونے والے سلوک پر اپنے غم و غصّے کا اظہار کرتے ہوئے انگریز سرکار کو مطعون کیا۔ اس حوالے سے یہ تحریر ملاحظہ کیجیے۔

"جمّوں سے تعلق رکھنے والے تین بھائی گلاب سنگھ، دھیان سنگھ اور سچیت سنگھ تھے۔ سکھ سلطنت میں یہ بااثر اور طاقت ور تھے۔ سکھ سلطنت میں کئی اہم عہدوں پر غیر سکھ رہے تھے اور جمّوں کے یہ بھائی بھی ان میں سے تھے۔ جمّوں اور پنجاب کے درمیان کوئی خاص جغرافیائی حدِ فاصل نہیں تھی۔ اور نہ ہی اس وقت سیاسی طور پر کچھ فرق تھا۔ لوگوں کا ایک دوسرے علاقے میں بہت آنا جانا تھا۔”

"لاہور سے سری نگر کے 180 میل سفر کے نصف راستے پر جموں شہر آتا تھا۔ جمّوں سے لاہور کا سفر، جمّوں سے سری نگر کے مقابلے میں بہت آسان تھا۔ اس لیے یہاں رہنے والوں کے زیادہ معاشرتی یا تجارتی روابط کشمیر کے مقابلے میں پنجاب سے تھے۔ آج پنجاب اور جمّوں کے درمیان سیاسی رکاوٹیں ہیں، لیکن سکھ حکومت کے وقت ایسا نہیں تھا۔ یہ عملاً پنجاب کی ایکسٹینشن تھی۔ جمّوں کے حکم رانوں کی پنجاب میں زمینیں تھیں اور یہی دوسری سمت میں بھی تھا۔”

"لاہور سکھ سلطنت کا دارُالحکومت تھا اور غیرسکھ آبادی کے لیے پرکشش شہر تھا۔ سکھ آرمی میں بہت سے مسلمان اور ہندو شامل تھے اور کچھ کرسچن بھی۔ اس میں یورپی افسر بھی شامل تھے۔ لاہور دربار میں ان سب کو ترقی کے مواقع میسّر تھے۔ اور ان ترقی کے مواقع سے گلاب اور دھیان سنگھ نے بہت فائدہ اٹھایا تھا۔ انھوں نے سکھ سلطنت کو بڑھانے میں بڑا کردار ادا کیا تھا۔ یہ رنجیت سنگھ کے معتمد تھے۔”

"1831ء میں ایک فرنچ مؤرخ نے لکھا ہے کہ “اگرچہ گلاب سنگھ ناخواندہ ہیں، لیکن رنجیت سنگھ کے پسندیدہ ہیں اور میرے خیال میں اگلے حکم ران بنیں گے۔” سکھ سلطنت نے ان بھائیوں کو اپنے علاقوں اور جاگیروں میں خودمختاری دی ہوئی تھی۔ (اس وقت میں سیاست کا طریقہ یہی ہوا کرتا تھا)۔”

"جب رنجیت سنگھ نے لاہور پر قبضہ کیا تھا تو گلاب سنگھ سات سال کے تھے۔ رنجیت نے 1808ء میں جموں کے علاقے پر قبضہ کر کے یہاں کی خودمختاری ختم کر دی تھی۔ اس وقت گلاب سنگھ کی عمر سترہ برس تھی اور وہ پڑھنا لکھنا نہیں جانتے تھے۔ ان کی شہرت جمّوں کی بغاوت کے دوران بڑھی۔ انھیں مقامی علاقے کا علم تھا۔ چالاکی اور سفاکی میں ان کی شہرت تھی۔ جمّوں حکومت کرنے کے لیے مشکل جگہ تھی۔ یہاں پر لوگوں پر کنٹرول رکھنا اور ٹیکس وصول کرنا آسان نہیں رہا تھا۔ اپنی دہشت کی وجہ سے گلاب سنگھ ٹیکس نکلوانے میں اتنے مؤثر رہے تھے کہ ایک مؤرخ نے انھیں “جمّوں کا ویمپائر” کہا ہے۔”

آپ کا ردعمل کیا ہے؟

like

dislike

love

funny

angry

sad

wow