پوسٹ مارٹم ڈپریشن کسے کہتے ہیں؟

کسی بھی خاتون کے لیے بچے کی پیدائش قابل دید خوشی کی بات ہوتی ہے لیکن کچھ مائیں ایسی بھی ہوتی ہیں جو زچگی کے بعد پریشانی، مایوسی، غصہ اور انجانے خوف کا شکار ہوجاتی ہیں۔ اے آر وائی ڈیجیٹل کے پروگرام گڈ مارننگ پاکستان میں ڈاکٹر نیلم ناز نے پوسٹ پارٹم ڈپریشن کی وجوہات […]

 0  2
پوسٹ مارٹم ڈپریشن کسے کہتے ہیں؟

کسی بھی خاتون کے لیے بچے کی پیدائش قابل دید خوشی کی بات ہوتی ہے لیکن کچھ مائیں ایسی بھی ہوتی ہیں جو زچگی کے بعد پریشانی، مایوسی، غصہ اور انجانے خوف کا شکار ہوجاتی ہیں۔

اے آر وائی ڈیجیٹل کے پروگرام گڈ مارننگ پاکستان میں ڈاکٹر نیلم ناز نے پوسٹ پارٹم ڈپریشن کی وجوہات اور اس کے علاج سے متعلق اہم باتیں بیان کیں۔

انہوں نے بتایا کہ بچے کی پیدائش کے بعد ستر سے اسی فیصد خواتین کے مزاج میں تبدیلیاں واقع ہوتی ہیں، انہیں بے بی بلیوز کہتے ہیں مگر ایسا چند دنوں کے لیے ہوتا ہے۔ اس کے بعد طبعیت خود ہی ایک ہفتے کے اندر نارمل ہو جاتی ہے۔

لیکن اگر یہ علامات ہفتوں یا مہینوں تک چلی جائیں تو یہ ’پوسٹ پارٹم ڈپریشن‘ کہلاتا ہے اور یہ علامات ایک سال تک ظاہر ہو سکتی ہیں تاہم اس کی وجوہات مختلف ہو سکتی ہیں۔

ان علامات میں شدید اضطراب اور اداسی، نیند کی کمی، بلاوجہ غصہ اور چڑ چڑاپن، بھوک نہ لگنا، بچے کے ساتھ جذباتی لگاؤ محسوس نہ ہونا، خود کو یا بچے کو نقصان پہنچانے کے خیالات اور بہت زیادہ رونا وغیرہ شامل ہیں۔

ڈاکٹر نیلم ناز نے بتایا کہ میرے دو بچے ہیں اور میں نے یہ چیز دونوں بار نوٹ کی، اکثر ماؤں کے ساتھ یہ کیفیت چھ ماہ سے دوسال تک رہ سکتی ہے،

انہوں نے کہا کہ حمل کے دوران جسم میں ہارمونز جیسے کہ ایسٹروجن اور پروجیسٹرون کی مقدار زیادہ ہوجاتی ہے اور زچگی کے بعد اس میں اتار چڑھاؤ کی وجہ سے موڈ میں تبدیلیاں واقع ہوتی ہیں جو ان علامات کا باعث بنتی ہیں۔

اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ زچگی کے بعد بہت سی خواتین کا وزن بڑھ جاتا ہے، اس کے علاوہ ماحول میں تبدیلی، ننھے بچے کی ذمہ داری اور جب یہ ساری چیزیں ذہن ایک ساتھ قبول نہیں کرپاتا تو پوسٹ مارٹم ڈپریشن کی کیفیت پیدا ہوجاتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ ایسی صورتحال سے نمٹنے کیلئے خواتین کو خود ہمت کرنی ہوتی ہے بصورت دیگر اسکے علاج کیلیے ادویات کا سہارا لینا پڑتا ہے۔

ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے مطابق دنیا بھر میں 13 فیصد خواتین بچے کی پیدائش کے بعد اس ڈپریشن کا شکار ہوتی ہیں جبکہ ترقی پذیر ممالک میں یہ شرح اس سے بڑھ کر 20 فیصد ہو جاتی ہے۔

یونیورسٹی آف ٹورنٹو کینیڈا کی ایک تحقیق کے مطابق پاکستانی ماؤں میں پوسٹ پارٹم ڈپریشن کی شرح 28 فیصد سے زیادہ ہے۔

آپ کا ردعمل کیا ہے؟

like

dislike

love

funny

angry

sad

wow