پرکاش مہرا: ایک کام یاب فلم ڈائریکٹر اور نغمہ نگار

پرکاش مہرا بولی وڈ کے وہ ہدایت کار تھے جن کی ایک فلم نے امیتابھ بچن کو ‘اینگری ینگ مین’ اور ‘سپر اسٹار’ بنا دیا تھا۔ 17 مئی 2009ء کو پرکاش مہرا چل بسے تھے اور امیتابھ بچن زندگی کے ان آخری لمحات میں بھی پرکاش مہرا کے ساتھ تھے۔ 13 جولائی 1939ء کو پرکاش […]

 0  4
پرکاش مہرا: ایک کام یاب فلم ڈائریکٹر اور نغمہ نگار

پرکاش مہرا بولی وڈ کے وہ ہدایت کار تھے جن کی ایک فلم نے امیتابھ بچن کو ‘اینگری ینگ مین’ اور ‘سپر اسٹار’ بنا دیا تھا۔ 17 مئی 2009ء کو پرکاش مہرا چل بسے تھے اور امیتابھ بچن زندگی کے ان آخری لمحات میں بھی پرکاش مہرا کے ساتھ تھے۔

13 جولائی 1939ء کو پرکاش مہرا نے اتر پردیش کے شہر بجنور میں آنکھ کھولی تھی۔ یہ وہ زمانہ تھا جس میں سنیما کا جادو ہندوستانیوں پر چل چکا تھا۔ اپنے وقت کے کئی بڑے فلم ساز، باکمال فن کار اور بڑے بڑے تخلیق کار فلم انڈسٹری میں اپنی صلاحیتوں کا مظاہرہ کررہے تھے اور ان کی فلمیں زبردست کام یابیاں سمیٹ رہی تھیں۔ متحدہ ہندوستان کے نوجوان سنیما کے دیوانے تھے اور جن کو موقع ملتا وہ فلم انڈسٹری میں کام کرنے کی خاطر اس وقت کے فلمی مرکز بمبئی پہنچ جاتے۔ پرکاش مہر بھی تقسیمِ ہند کے بعد بطور اداکار قسمت آزمانے ممبئی پہنچے تھے۔ یہ 60 کی دہائی تھی۔ ان کے کریئر کا آغاز فلم اجالا اور پروفیسر جیسی فلموں سے ہوا۔ لیکن پھر وہ ہدایت کاری کی طرف چلے گئے۔ 1968ء میں ایک فلم ‘حسینہ مان جائے گی’ ریلیز ہوئی اور یہ بطور ہدایت کار پرکاش مہرا کی پہلی فلم تھی۔ اس فلم میں ششی کپور نے دہرا کردار ادا کیا تھا۔ اس فلم کے بعد پرکاش مہرا نے پلٹ کر نہیں دیکھا اور شان دار کام کی بدولت فلمی دنیا میں‌ نام و مقام بنایا۔

1973ء میں فلم زنجیر ریلیز ہوئی جو نہ صرف پرکاش مہرا کے لیے بلکہ امیتابھ بچن کے کریئر میں بھی سنگِ میل کی حیثیت رکھتی ہے۔ اس فلم کا معاہدہ امیتابھ بچن نے ایک روپیہ میں کیا تھا۔زنجیر ریلیز ہوئی اور ہر طرف دھوم مچ گئی۔ اس شان دار آغاز کے بعد امیتابھ اور پرکاش مہرا کی سپر ہٹ فلموں کا گویا سلسلہ ہی چل نکلا۔ فلم لاوارث، مقدر کا سکندر، نمک حلال، شرابی، ہیرا پھیری اور دیگر فلموں نے باکس آفس پر تہلکہ مچا دیا۔

امیتابھ بچن کا بولی وڈ کے ہدایت کاروں اور پروڈیوسروں میں پرکاش مہرا سے ایک خاص اور گہرا جذباتی تعلق تھا۔ پرکاش مہرا ہندی فلموں کے کام یاب ترین ہدایت کار اور فلم ساز تھے جن کا ایک حوالہ نغمہ نگاری بھی ہے۔ پرکاش مہرا مشہور فلمی شاعر انجان سے بہت زیادہ متاثر تھے اور ان سے گہری دوستی بھی تھی۔ انجان نے پرکاش کی شاعری سن کر ان کے بارے میں کہا تھا کہ ان کی شاعری بہت مقبول ہوگی۔ پرکاش نے بعد اپنی کئی فلموں میں اپنے تحریر کردہ گیت شامل کیے جن میں او ساتھی رے، تیرے بنا بھی کیا جینا…، لوگ کہتے ہیں میں شرابی ہوں، جوانی جانِ من. حسین دلربا، دل تو ہے دل، دل کا اعتبارکیا کیجے وغیرہ شامل ہیں۔

فلمی دنیا میں‌ یہ بات بڑی مشہور ہوئی تھی کہ ان کی زیادہ تر فلموں کا ہیرو لاوارث ہوتا ہے، اکثر لوگ پرکاش مہرا سے اس پر تعجب کا اظہار کرتے اور اس کا سبب دریافت کرتے، لیکن پرکاش مہرا اس سوال پر ہنستے ہوئے لوگوں کو ٹال دیتے تھے۔

بولی وڈ کے اس باکمال ہدایت کار فلم ساز کی ذاتی زندگی کا ایک بڑا المیہ بچپن میں ماں کے انتقال کے بعد والد کا دماغی توازن کھو دینا تھا اور اس کی وجہ سے پرکاش مہرا نے اپنی زندگی کے ابتدائی دنوں کو ایک قسم کی محرومی اور تکلیف کے احساس کے ساتھ گزارا تھا۔ باپ کی یہ دیوانگی شاید انھیں ایک قسم کے لاوارث ہونے کا احساس دلاتی تھی اور شاید پرکاش مہرا نے اپنے اسی دکھ کو فلموں میں ایک لاوارث ہیرو کی شکل میں پیش کیا۔

سال 2001ء میں فلم "مجھے میری بیوی سے بچاوٴ” کے بعد پرکاش مہرا کا فلمی سفر گویا تمام ہوگیا تھا۔ یہ فلم بری طرح‌ فلاپ ہوگئی تھی ان کی شریکِ حیات بھی انہی دنوں ان کا ساتھ چھوڑ گئیں جس کا پرکاش مہرا کو بہت دکھ تھا۔ وہ اپنی زندگی میں جن لوگوں سے قریب رہے اور دوستی کی، اسے تاعمر نبھایا۔

آپ کا ردعمل کیا ہے؟

like

dislike

love

funny

angry

sad

wow