مسلمانوں کیخلاف بنی ’کیرالہ اسٹوری‘ کو او ٹی ٹی پلیٹ فارم پر کوئی خریدار نہ ملا
مسلمانوں کیخلاف بننے والی تعصب سے بھرپور جھوٹ پر مبنی فلم ’دی کیرالہ اسٹوری‘ کو او ٹی ٹی پلیٹ فارم پر کوئی خریدار نہ مل سکا۔ متنازع فلم کی اسٹریمنگ کے حوالے سے رپورٹس میڈیا پر آئی تھیں، تاہم ہدایت کار سوڈیپٹو کا کہنا ہے کہ یہ جھوٹی خبر ہے ہمیں اب تک فلم کے […]
مسلمانوں کیخلاف بننے والی تعصب سے بھرپور جھوٹ پر مبنی فلم ’دی کیرالہ اسٹوری‘ کو او ٹی ٹی پلیٹ فارم پر کوئی خریدار نہ مل سکا۔
متنازع فلم کی اسٹریمنگ کے حوالے سے رپورٹس میڈیا پر آئی تھیں، تاہم ہدایت کار سوڈیپٹو کا کہنا ہے کہ یہ جھوٹی خبر ہے ہمیں اب تک فلم کے لیے کوئی خریدار نہیں مل سکا، ہم اب بھی کسی مناسب او ٹی ٹی پلیٹ فارم سے ایک اچھی قابل عمل ڈیل کا انتظار کر رہے ہیں۔
تاہم ابھی تک ہمیں کوئی ایسی پیشکش نہیں ملی جس پر غور کیا جائے، ایسا لگتا ہے کہ فلم انڈسٹری ہمیں سزا دینے کے لیے تیار ہو گئی ہے۔
فلم کے ہدایت کار سوڈیپٹو نے کہا کہ لیکن سزا کس بات کی؟ ہماری باکس آفس کی کامیابی نے فلم انڈسٹری کے بہت سے حصوں کو متاثر کیا ہے، لگتا ہے فلمی صنعت کا ایک حصہ ہماری کامیابی کی سزا دینے کے لیے متحد ہو گیا ہے۔
اس حوالے سے ایک سرکردہ او ٹی ٹی پلیٹ فارم سے پوچھا گیا کہ ’کیرالہ اسٹوری‘ کو اب تک کوئی ڈیجیٹل آؤٹ لیٹ نہیں مل سکا؟ او ٹی ٹی پلیٹ فارم کا کہنا تھا کہ ہم سیاسی طور پر متنازع کسی بھی چیز میں نہیں پڑنا چاہتے۔
خیال رہے کہ بالی ووڈ میں ’دی کیرالہ اسٹوری‘کے نام سے اسلام اور داعش میں شمولیت سے متعلق جھوٹ پرمبنی ایک متنازعہ فلم بنائی گئی تھی جو کہ کافی ہٹ بھی ثابت ہوئی تھی۔
فلم میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ ریاست کیرالہ سے 32 ہزار نوجوان اور کم عمر لڑکیوں نے غائب ہوکر داعش میں شمولیت اختیار کی جو ہندوستان کے علاوہ شام اور لیبیا سمیت دیگر ممالک میں دہشت گردی پھیلارہی ہیں۔
یہ بات واضح تھی کہ فلم کو خاص پروپیگنڈا کے تحت بنا کر مسلمانوں کو بدنام کرنے کی کوشش کی گئی ہے اور دکھایا گیا ہے کہ مقامی علما ہی خواتین کو دین اسلام کی جانب راغب کرکے انھیں مسلمان بنا رہے ہیں۔
اس کی حساسیت کو دیکھتے ہوئے جمعیت علمائے ہند کے صدر مولانا سید ارشد مدنی نے بھی متنازع فلم ’دی کیرالہ اسٹوری‘ کو ہندو مسلم دشمنی کی جڑیں گہری کرنے کی سازش قرار دیا تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ بھارت میں عرصہ دراز سے یہی چل رہا ہے، میں کسی سیاسی جماعت یا کسی مخصوص رہنما کا نام نہیں لینا چاہتا لیکن ایسے معاملات فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے لیے خطرہ ہیں۔
آپ کا ردعمل کیا ہے؟