محمد علی جناح: زندگی وہ پانچ ادوار جو انتھک محنت اور مستقل مزاجی کا مظہر ہیں
بڑے لوگوں کی باتیں اور مقاصد بھی بڑے ہوتے ہیں اور وہ کسی بھی معاشرے کے لیے اپنے قول و فعل سے ایک مثال بنتے ہیں۔ بڑا آدمی جب اپنے مقصد کی تکمیل اور منزل کے لیے عملی کوشش شروع کرتا اور پختہ ارادے کے ساتھ آگے بڑھتا ہے تو کام یابی اس کے قدم […]
بڑے لوگوں کی باتیں اور مقاصد بھی بڑے ہوتے ہیں اور وہ کسی بھی معاشرے کے لیے اپنے قول و فعل سے ایک مثال بنتے ہیں۔ بڑا آدمی جب اپنے مقصد کی تکمیل اور منزل کے لیے عملی کوشش شروع کرتا اور پختہ ارادے کے ساتھ آگے بڑھتا ہے تو کام یابی اس کے قدم چومتی ہے۔
آج بانی پاکستان قائدِ اعظم محمد علی جناح کا یومِ پیدائش منایا جارہا ہے، لیکن جس جوش و جذبہ سے ہم بابائے قوم کو یاد کرتے ہیں، یہ بھی ضروری ہے کہ ہم قائد اعظم کے افکار و خیالات اور اس وطن کے حصول کے لیے ان کے عزم و استقلال، جرأت و اعتماد، دیانت داری، خلوص اور بلند حوصلگی کو اپنے لیے مثال بھی بنائیں اور انہی اوصاف کو اپنا کر انفرادی اور اجتماعی ترقی و خوش حالی کا راستہ ہموار کریں۔ یہاں ہم بابائے قوم محمد علی جناح کی زندگی کے پانچ ادوار پر نظر ڈالتے ہیں۔
بلاشبہ اس دور میں ہندوستان کی سیاست میں قدم رکھنا، خاص طور پر مسلم لیگ کی قیادت کرتے ہوئے الگ وطن کے حصول کی جدوجہد کرنا قائد اعظم کی زندگی کا نہایت ہنگامہ خیز دور تھا۔ یوں تو نوجوان محمد علی جناح کی تعلیمی میدان میں کام یابیوں، بطور وکیل پیشہ ورانہ سفر اور پھر سیاسی سفر پر بہت کچھ لکھا گیا ہے، لیکن جب ہم اپنے قائد کے تعلیمی دور سے لے کر ان کی جدوجہد تک ایک مختصر جائزہ لیں تو اس میں بہت سے اہم باتیں سامنے آتی ہیں جن کا نوجوان نسل کو علم ہونا چاہیے۔
محمد علی جناح کی زندگی کے پہلے دور کو 20 برسوں پر محیط کہا جاسکتا ہے۔ یہ زمانہ تھا 1876ء سے 1896ء تک کا، جب انھوں نے تعلیم پائی اور انگلستان میں بیرسٹری کا امتحان پاس کیا۔
اس کے بعد اگلے دس سال یعنی 1896ء سے لے کر 1906ء تک کے عرصے میں انھوں نے مکمل یک سوئی اور محنت سے وکالت میں اپنی لیاقت کا لوہا منوایا۔
مؤرخین اور سوانح و خاکہ نگار محمد علی جناح کے تیسرے دور کو 1906ء سے 1916ء تک دیکھتے ہیں، جب وہ زیادہ تر کانگریس کے پلیٹ فارم سے متحرک رہے۔
قائدِ اعظم محمد علی جناح کی زندگی کا چوتھا دور بھی 20 سال پر محیط ہے اور یہ 1916ء سے 1936ء کا زمانہ ہے۔ اس میں بانی پاکستان نے کانگریس، لیگ اور ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان بڑی مستقل مزاجی اور حوصلے سے مفاہمت کی کوششیں جاری رکھیں۔
پانچواں دور 1937ء سے شروع ہوتا ہے اور یہ ان کی وفات تک یعنی 1948ء تک کا ہے۔ اس دور کے ابتدائی برسوں میں محمد علی جناح نے وکالت چھوڑ کر اپنی تمام تر توجہ مسلمانانِ ہند کے اتحاد اور تنظیم پر مرکوز کردی اور پاکستان کے حصول کے لیے دن رات ایک کردیا تھا۔ بعد کے برسوں میں وہ پاکستان کے قیام کی جدوجہد میں بے حد مصروف ہوگئے اور قیامِ پاکستان کے بعد پہلے گورنر جنرل کی حیثیت سے کام کرتے رہے۔ 11 ستمبر 1948ء کو وہ اس دارِ فانی سے رخصت ہوئے۔
قائدِاعظم کی زندگی کے ان ادوار پر غور کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ وہ ہمیشہ کسی نہ کسی مقصد اور نصبُ العین کے حصول کے لیے مصروفِ کار رہے۔
قائداعظم سے 21 جون 1937ء کو شاعرِ مشرق علّامہ اقبال نے کہا تھا: ’’ہندوستان میں صرف آپ ہی ایک ایسے مسلمان لیڈر ہوسکتے ہیں جو اپنی قوم کو اس طوفان سے، جو ان پر آنے والا ہے، بچاسکتا ہے۔ اس لیے قوم کو حق ہے کہ وہ آپ سے راہ نمائی کی امید رکھے۔‘‘
قائدِ اعظم قوم کے اس حق اور اپنے فرض کو بخوبی پہچان چکے تھے اور کانگریس سے تعلق توڑنے اور وکالت ترک کرنے کے بعد اپنی تمام زندگی حصولِ پاکستان کی جدوجہد میں گزار دی اور مسلمانوں کی قربانیوں کا صلہ ہمیں آزادی کی صورت میں ملا۔
آپ کا ردعمل کیا ہے؟